منکی پاکس کے حوالے سے عالمی سطح پر ہنگامی صورتحال ہے، ڈبلیو ایچ او
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ منکی پاکس کی درجہ بندی اب بھی عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال کے طور پر کی جانی چاہیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے بیان میں بتایا کہ دنیا بھر میں مئی میں پھیلنے والی بیماری کے حوالے سے 20 اکتوبر کو منعقدہ اجلاس میں جائزہ لیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ ماہرین کا اتفاق تھا کہ یہ صورت حال اب بھی پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آف انٹرنیشنل کنسرن (پی ایچ ای آئی سی) کے پیمانے پر پوری اترتی ہے۔
یاد رہے کہ ڈبلیو ایچ او نے 23 جولائی کو پہلی بار منکی پاکس بیماری کے تیزی سے پھیلاؤ پر عالمی سطح پر صحت کی ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ’منکی پاکس‘ کا مدافعتی کمزوری کے شکار افراد کو شدید متاثر کرنے کا انکشاف
بیان میں بتایا گیا کہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانوم گیبریسیس نے ماہرین کے مشورے سے اتفاق کیا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق افریقہ کے ممالک میں منکی پاکس کے پھیلاؤ میں اضافے کے بعد اب تک 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 109 ممالک میں 77 ہزار سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
منکی پاکس صرف قریبی تعلقات اور خصوصی طور پر جسمانی تعلقات سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے، ماہرین کے مطابق منکی پاکس بڑے پیمانے پر ان مرد حضرات میں تیزی سے پھیلتا ہے جو ہم جنس پرستی کی جانب راغب ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ جولائی میں وبا کے عروج پر پہنچنے کے بعد سے بیماری سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے، جو بخار، پٹھوں میں درد اور جلد کے بڑے پھوڑے جیسے زخموں کا باعث بنتی ہے۔
مزید پڑھیں: منکی پاکس سے صحت کی ہنگامی صورتحال کا خطرہ نہیں، عالمی ادارہ صحت
ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں عالمی سطح پر اس کے نئے کیسز میں 41 فیصد کمی ہوئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی اجلاس میں زور دیا گیا کہ اب بھی تشویش کی بہت سی وجوہات ہیں۔
انہوں نے چند خطوں میں اس کی منتقلی، ممالک کے اندر اور ان کے درمیان وبا سے بچاؤ اور ردعمل کے حوالے سے عدم مساوات کی نشان دہی کی۔
اسی طرح اگر وائرس کمزور طبقوں میں پھیلنا شروع کردیتا ہے تو اس کے صحت پر زیادہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ‘منکی پاکس’ 58 ممالک تک پھیل چکا، عالمی ادارہ صحت
اجلاس میں ترقی پذیر ممالک کے صحت کے کمزور نظام پر بھی روشنی ڈالی گئی، جس کی وجہ سے اس کے کافی کیسز رپورٹ نہیں ہوئے ہیں اور وہاں پر تشخیص اور ویکسین تک مساوی رسائی بھی نہیں ہے۔