عمران خان نے باہمی مشاورت سے آرمی چیف کے تقرر کی پیشکش کی، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان نے ایک ماہ قبل ایک مشترکہ کاروباری دوست کے ذریعے نئے آرمی چیف کے تقرر کے لیے باہمی مشاورت کی پیشکش کی تھی۔
لاہور میں یوٹیوبرز سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ سوشل میڈیا کے بڑے ناموں سے آج میری ملاقات کا اہتمام کیا گیا ہے، میں کبھی سوشل میڈیا کا اتنا فالوور نہیں رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس میڈیم کی آواز پاکستان بھر میں زور سے گونجتی ہے اور سنی جاتی ہے، آپ سب سے تاخیر سے ملنے پر معذرت خواہ ہوں، ان شا اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم شہباز شریف دو روزہ سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 6 ماہ میں اپنے دور حکومت کے دوسرے دورے پر میں 24 اکتوبر کو سعودی عرب گیا، شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کی کابینہ سے بہت اچھے اور مثبت ماحول میں گفتگو ہوئی، انہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا یقین دلایا، وہ بہت جلد دورہ پاکستان پر بھی آئیں گے اور ہم ان کا والہانہ استقبال کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اب میں دورہ چین پر جارہا ہوں، پاک ۔ چین دوستی لازوال ہے، دونوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا، 2015 میں سی پیک کا معاہدہ وجود میں آیا جس کے ذریعے پاکستان میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، امید ہے یہ دورہ اس تعلق کو مزید گہرا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ملنے والی امداد ہماری ضرورت سے کہیں کم ہے، ہم نے کوشش کرکے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کیا اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا، گزشتہ حکومت نے ملک کو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی لانگ مارچ کا آج سے آغاز
ان کا کہنا تھا کہ ابھی میں سعودی عرب کے دورے سے آیا اور چین جارہا ہوں اور انہوں نے ایک بار پھر سے دھرنے اور لانگ مارچ شروع کردیے، ستمبر 2014 میں بھی یہ لوگ یہی کر رہے تھے جب چینی صدر شی جن پنگ نے دورہ پاکستان پر آنا تھا، چینی سفیر نے انہیں درخواست کی کہ آپ 3 روز کے لیے یہاں سے اٹھ جائیں لیکن انہوں نے انکار کردیا اور وہ دورہ 7 ماہ مؤخر ہوگیا، آج دوبارہ عمران خان نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دھرنے اور لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے، انہوں نے اپنے دور حکومت میں اس ملک کو کیا دیا؟
انہوں نے کہا کہ ہم دن رات مہنگائی کم کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، اگر آپ نے ملک کو دوبارہ سیاسی بحران میں دھکیلنا ہے تو موجودہ منتخب حکومت اس کی اجازت نہیں دے گی۔
’آرمی چیف کی تعیناتی خالصتاً آئینی معاملہ ہے‘
آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ میرے ایک جاننے والے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں، ایک ماہ پہلے وہ میرے پاس عمران خان کی جانب سے دھمکیوں سے لبریز مذاکرات کا پیغام لے کر آئے حالانکہ ماضی میں یہ ہماری مذاکرات کی پیشکش ہمیشہ ٹھکرا دیتے تھے اور این آر او مانگنے کا الزام عائد کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ عمران خان الیکشن کی تاریخ اور آرمی چیف کی تعیناتی پر مجھ سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے، میں نے کہا کہ انہیں اب یاد آیا ہے؟ کیا آرمی ایکٹ میں ترامیم کے وقت انہوں نے مجھ سے مشورہ کیا تھا؟
ان کا کہنا تھا کہ میں نے سوال کیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی خالصتاً آئینی معاملہ ہے جس کی صوابدید وزیراعظم کو حاصل ہے، تو پھر کس بات پر مشورہ کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے جواب دیا کہ وہ باہمی مشاورت سے آرمی چیف تعینات کروانا چاہتے تھے کہ 3 نام میں دیتا ہوں اور 3 آپ دیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے عمران خان کو واپس پیغام بھیجا کہ میں مذاکرات کے لیے تیار ہوں جس سے ملک کسی بحرانی کیفیت میں نہ آئے، میثاق معیشت اور میثاق جمہوریت پر بات ہوسکتی ہے لیکن جہاں تک آرمی چیف کے تقرر کی بات ہے تو یہ ایک آئینی معاملہ ہے اور مجھے عمران خان کے ساتھ اس بارے میں مشاورت نہیں کرنی، یہ بات آپ سب کو اس لیے بتا رہا ہوں کہ یہ ایک آئینی اختیار ہے اور اللہ کرے میں اسے خوش اسلوبی سے ادا کر سکوں۔
مزید پڑھیں: ملک کی خاطر شہباز شریف اور عمران خان سے بات کرنے کیلئے تیار ہوں، صدر مملکت
انہوں نے کہا کہ مدینہ منورہ میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی رہائی کے لیے میں نے شہزادہ محمد بن سلمان سے درخواست اور انہوں نے 10 سیکنڈ میں ان کی رہائی کے احکامات جاری کردیے۔
چیف الیکشن کمشنر سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کا نام میں نے نہیں دیا تھا، یہ نام عمران خان نے ہی دیے تھے، چیئرمین نیب کے نام پر قانونی طور پر مشاورت ہونا تھی لیکن انہوں نے وہ قانون ہی ختم کردیا تھا، اس وقت تو یہ ہم سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے تھے تو اب مشاورت کی پیشکش کیوں کر رہے ہیں؟ یہ بدترین قسم کا دوغلا پن نہیں تو کیا ہے؟ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی تعریفوں کے پُل تو یہ خود باندھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے عمران خان کو تحفہ بطور وزیراعظم ملا تھا، 14 یا 18 کروڑ کی وہ قیمتی ترین گھڑی تھی، آپ اس تحفے کو توشہ خانہ میں جمع کروا سکتے ہیں یا پھر اس کی پرسنٹیج قیمت ادا کرکے خرید سکتے ہیں، لیکن یہ میں نے پہلی بار سنا کہ آپ اس تحفے کو بازار میں بیچ کر پیسے جیب میں ڈال لیں، انہوں نے باقی تحفے بھی توشہ خانہ میں جمع کرانے سے پہلے ہی بیچ دیے تھے اور بعد میں توشہ خانہ میں اس کی قیمت جمع کروائی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ دورہ سعودی عرب بہت مثبت رہا ہے، میں قبل از وقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، عمران خان ڈینگیں مارتے تھے، میں شیخی نہیں بگھاروں گا، ان شا اللہ آپ دیکھیں گے کہ یہاں بڑے بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری ہوگی۔
’ڈی جی آئی ایس آئی نے مجھ سے اجازت لے کر پریس کانفرنس کی‘
ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے افواج پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کیے، عظیم قربانیاں دینے والے ادارے کے خلاف زہر اگلا گیا، اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا کوئی غیر آئینی یا غیرقانونی کام ہورہا تھا؟ کیا تحریک عدم اعتماد کوئی غیر آئینی کام تھا؟ بلکہ اب تو یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ عمران خان، تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کر رہے تھے، بعد میں انہوں نے اسی ادارے کے خلاف زیر اگلا جس نے انہیں پالا پوسا اور 4 برس تک اس کو کامیاب کرانے کے لیے یہ ادارہ اس حد تک گیا کہ شاید یہ کامیاب ہوجائے اور پاکستان کا کچھ بھلا ہوجائے۔
ان کا کہنا تھا اس شخص کے لیے ادارے نے تمام بیریئرز ایک طرف کردیے تھے اور اس کو وہ سپورٹ دی جو 75 برسوں میں کسی کو نہیں ملی اور ملے گی بھی نہیں، اس سے 20 فیصد سپورٹ ہمیں ملی ہوتی تو پاکستان نواز شریف کی قیادت میں راکٹ کی طرح اوپر جارہا ہوتا، اس کے باوجود یہ شخص ناکام ہوگیا۔
مزید پڑھیں: اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں؟ ڈی جی آئی ایس آئی
شہباز شریف نے کہا کہ جب اس کی پیشکش مسترد کردی گئی تو اس نے اسی ادارے کو غداری کے القابات سے نوازنا شروع کردیا، ڈی جی آئی ایس آئی نے مجھ سے اجازت لی کہ ہمارے ادارے پر شدید الزامات لگ رہے ہیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر ان واقعات کے شاہد نہیں جن کا میں ہوں اس لیے مجھے اجازت دیں کہ میں محتاط انداز میں ان کا جواب دوں اور انہوں نے ایسا ہی کیا، ادارے کی جانب سے غیر سیاسی ہونے کی بات آنا خوش آئند ہے، اچھی بات کو سراہنا چاہیے۔
’علی امین گنڈاپور کی آڈیو کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ یہ لانگ مارچ، خونی مارچ ہوگا‘
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کی آڈیو لیک سامنے آنے کے بعد اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ یہ لانگ مارچ ایک خونی مارچ ہوگا، اگر انہوں نے اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہونے یا راولپنڈی کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تو اسے قانونی طریقے سے ناکام بنایا جائے گا۔
بھارت سے تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں بالکل تیار ہوں لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بچتی ہے، اگر وہ سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کریں گے تو باقی باتیں بےمعنیٰ رہ جاتی ہیں، میں نے سعودی فرمانروا سے بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔