لانگ مارچ سے عمران خان کی روانگی نے قیاس آرائیوں کو جنم دے دیا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا پارٹی کے لانگ مارچ سے غروب آفتاب کے فوراً بعد اچانک غائب ہو جانا اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کے اس اعلان نے کہ عمران خان ایک ’انتہائی اہم اجلاس‘ میں شرکت کے لیے لاہور روانہ ہو گئے ہیں، میڈیا اور شرکا کو قیاس آرائیوں کی لپیٹ میں لے لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری اور پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے پارٹی سربراہ کے کسی میٹنگ کے لیے روانہ ہونے کی تردید کی اور اصرار کیا کہ یہ پہلے سے طے شدہ ایس او پی ہے کہ مارچ ’سیکیورٹی وجوہات‘ کی وجہ سے اندھیرے میں سفر نہیں کرے گا۔
اچانک مارچ سے چلے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ اور طاقتوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بارے میں بڑھتی ہوئی قیاس آرائیوں کے درمیان عمران خان نے خود ہی ان افواہوں کو ’بے بنیاد‘ قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پریس کانفرنس میں اتنے جھوٹ ہیں، پوری بات اداروں کی شرمندگی کا باعث بنے گی، عمران خان
ٹوئٹر پر ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’ان سب کے لیے جو لاہور میں میری ملاقات کی افواہیں پھیلا رہے ہیں، ہماری واپسی کی وجہ یہ تھی کہ لاہورقریب تھا، ہم پہلے ہی رات کو سفر نہ کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 6 ماہ سے میرا واحد مطالبہ صاف شفاف انتخابات کے فوری انعقاد کی تاریخ رہی ہے، اگر مذاکرات ہوئے بھی تو میرا واحد مطالبہ یہی رہے گا۔
اس سے قبل بول نیوز سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی نقل و حرکت سست ہے کیونکہ ’ہزاروں لوگ‘ عمران خان کے کنٹینر کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا کوئی رہنما حکومت سے کوئی بات چیت نہیں کر رہا کیونکہ یہ کام صدر عارف علوی کو سونپا گیا ہے، انہوں نے جو اتفاق رائے یا حل نکالا ہم اسے قبول کریں گے۔
مزید پڑھیں: تشدد کرنے والوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں ہم بھیڑ بکریاں نہیں ہیں، عمران خان
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بات چیت صرف بادشاہوں سے ہوگی پیادوں سے نہیں، مذاکرات تبھی ہوں گے جب مخلوط حکومت جلد انتخابات کے اعلان کو قبول کرے گی۔
دریں اثناء وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے بھی یہ کہا کہ عمران خان کسی حکومتی کمیٹی سے مذاکرات نہیں کریں گے اور دعویٰ کیا کہ حکمران اتحاد کے ساتھ اگلے انتخابات پر مذاکرات جاری ہیں۔
دنیا نیوز کے اینکرز اجمل جامی اور مجیب الرحمٰن شامی سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ انتخابات تھے، لانگ مارچ نے اس حوالے سے امید کی کرن فراہم کی ہے۔
پرویز الہٰی نے کہا کہ حکمران اتحاد، وزیر اعظم، عمران خان اور مجھ سمیت ہر کوئی جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’پی ڈی ایم کے سارے فیصلے لندن سے ہورہے ہیں‘
بعد ازاں شام کو وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی اسد عمر کے اعلان پر رد عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ’مسترد شدہ غیر ملکی فنڈڈ فتنے‘ کے ساتھ کوئی ’مذاکرات‘ نہیں کیے جارہے بلکہ صرف مذاق رات جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب لوگ ’لانگ ڈرائیو‘ سے واپس آنا شروع ہوئے تو عمران خان ’فرار ہو گئے‘۔
پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے ڈان کو بتایا کہ عمران خان اب چاہتے ہیں کہ مارچ صرف دن کے وقت آگے بڑھے تاکہ دنیا بڑے ہجوم کو دیکھ سکے۔
فواد چوہدری نے ہفتے کی شام ٹوئٹ کیا کہ آج کا مارچ فوراً ختم ہو رہا ہے، جو (کل) اتوار کی صبح 11 بجے مریدکے سے دوبارہ شروع ہوگا۔