استور مارخور کے شکار کا لائسنس ایک لاکھ 65 ہزار ڈالر کی تاریخی قیمت میں فروخت
محکمہ جنگلات و جنگلی حیات گلگت بلتستان نے ٹرافی ہنٹنگ پالیسی کے تحت جنگلی نایاب جانور استور مارخور کے شکار کا لائسنس ایک لاکھ 65 ہزار امریکی ڈالرکی تاریخی قیمت پر فروخت کر دیا، جو کہ پاکستانی کرنسی میں تقریباً 3 کروڑ 71 لاکھ 86 ہزار کے برابر ہے۔
گزشتہ 2 سالوں میں استور مارخور کا لائسنس تاریخ کے مہنگے ترین دام پر فروخت کیا گیا ہے اس سے قبل استور مارخور کا لائسنس ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار امریکی ڈالر پر نیلام ہوتا رہا ہے، تاہم رواں سال ڈالر کی قدر تیزی سے بڑھنے کا عوام کو غیر معمولی مالی فائدہ حاصل ہوا ہے۔
گلگت بلتستان میں استور مارخور کے شکار کے لیے ملکی کمپنیوں سے لائسنس امریکا، فرانس اور یورپی ممالک کے باشندے حاصل کرتے ہیں۔
محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے علاقائی دفتر میں جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے لائسنسز کی سالانہ نیلامی سیکریٹری فاریسٹ اینڈ وائلڈ لائف فیصل احسن پیرزادہ کی نگرانی میں ہوئی جس میں جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ لائسنسز کی نیلامی میں مقامی و ملکی اور غیر ملکی آؤٹ فٹرز نے حصہ لیا۔
یہ بھی پڑھیں: نجی آپریٹرز کا ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کا غلط استعمال
نیلامی میں استور مارخور کے شکار کے لائسنس کے لیے گلگت بلتستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی لگائی گئی، اورآوٹ فٹر کمپنی مہران سفاری نے 1 لاکھ 65 ہزار ڈالر (3 کروڑ 71 لاکھ 86 ہزار روپے) کی بولی لگا کر کارگاہ گلگت کنزرویشن ایریا میں استور مارخور کے شکار کا لائسنس حاصل کرلیا۔
گزشتہ سال آوٹ فٹر کمپنی ایڈونچر سینٹر نے 1 لاکھ 36 ہزار امریکی ڈالرز کی سب سے بڑی بولی دے کر استور مارخور کے شکار کے لیے لائسنس حاصل کیا تھا۔
ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے تحت ہر سال جنگلی جانوروں کے شکار کے لائسنسز کے لیے بولی کا اہتمام کیا جاتا ہے، ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے تحت زیادہ بولی دینے والے رجسٹرڈ آوٹ فٹر کمپنیز کو 3 اقسام کے جنگلی جانوروں استور مارخور، آئبیکس اور بلیو شیپ کے شکار کے لیے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں۔
جنگلی جانوروں کے شکار کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا 85 فیصد حصہ شکار کے مقام سے ملحقہ کمیونٹی کو دیا جاتا ہے جبکہ 15 فیصد رقم قومی خزانے میں جمع کروائی جاتی ہے۔
سالانہ جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے جاری سب سے مہنگا لائسنس استور مارخور کا فروخت کیا جاتا ہے، اس بار لائسنس مہران سفاری نامی کمپنی نے حاصل کیا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی شہری نے 41 انچ لمبے سینگ والا استور مارخور شکار کرلیا
محکمہ تحفظ جنگل و جنگلات کے اہلکار سید طارق حسین کا کہنا ہے کہ استور مارخور گلگت بلتستان کے مختلف پہاڑوں اور نالہ جات میں پایا جاتا ہے، جسکی اس بار بڑی بولی دی گئی ہے۔
محققین کے مطابق مارخور گلگت بلتستان میں قیام پاکستان سے قبل سب سے پہلے استور میں دریافت ہوا تھا، اس لیے اس کا نام استور مارخور کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، مارخور پاکستان کا قومی جانور بھی ہے۔
گلگت بلتستان کے پہاڑی اور بالائی علاقوں کے پسماندہ گاؤں میں کنزرویشن کمیٹی کے زریعے سالانہ ٹرافی ہنٹنگ کی 85 فیصد رقم خرچ کی جاتی ہے جس سے مقامی لوگوں کو جانوروں کے تحفظ میں مدد اور غیر قانونی شکار کو روکنے کے تحت ہونے والے معاہدے کے تحت اس رقم کو صحت، تعلیم اور دیگر سماجی منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔
محکمہ جنگی حیات کے ذرائع نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ کے کامیاب تجربے پر گلگت بلتستان میں جنگی جانوروں کے تحفظ کے لیے مزید کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ان میں قابل ذکر طور پر پہاڑوں پر بھیڑیے کا پالتو جانوروں کو مارنے پر چرواہے پالتو جانوروں کو بچانے کے لیے ان جنگی حیات کو مار دیتے تھے اب پالتو جانوروں کا بعض علاقوں میں انشورنس کرایا جاتا ہے، جن کے نقصان پر معاوضے ادا کر دئیے جاتے ہیں جس سے بھیڑیے کو بچانے میں مدد مل رہی ہے ۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ٹرافی ہنٹنگ سیزن نومبر میں شروع ہوتا ہے اور اپریل میں اختتام پذیر ہوجاتا ہے، غیر ملکی، قومی اور مقامی شکاری لائسنس حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان کے محفوظ علاقوں میں ٹرافیز شکار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت میں ایک اور امریکی کی جانب سے مارخور کا شکار
مزید بتایا گیا تھا کہ ٹرافی ہنٹنگ کا پروگرام 80 کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا جو جنگی حیات کی نایاب نسل کے بین الاقوامی کنوینشن کے تحت ہوتا ہے اور گلگت بلتستان کے صرف مخصوص علاقوں میں ہی اس کی اجازت ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں