بلوچستان میں بدامنی، اراکین اسمبلی کا صوبائی حکومت سے سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اور حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے صوبائی حکومت سے لیویز اہلکاروں کی سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کردیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے قرارداد پیش کی جو بغیر کسی مخالفت کے منظور کرلی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کی مخالفت
قائم مقام اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر سربراہی ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زہری، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے ملک نصیر احمد شاہوانی اور اختر حسین لانگو، متحدہ مجلس عمل کی زبیدہ بی بی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نیل نے مشترکہ طور پر قرارداد پیش کی۔
قرارداد میں بتایا گیا کہ 11 ماہ قبل صوبائی حکومت نے اراکین اسمبلی کی سیکیورٹی واپس لے لی تھی جس کے بعد صوبائی اراکین اسمبلی کی زندگیاں خطرے میں ہیں، قرارداد میں صوبائی قانون سازوں کی سیکیورٹی کے لیے لیویز اہلکاروں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر ضیااللہ لانگو نے حکومت کی جانب سے جواب دیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد صوبائی اراکین کی سیکیورٹی واپس لی گئی تھی، تاہم منتخب اراکین اسمبلی کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات یقینی بنائے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: بلوچستان اسمبلی: عام انتخابات جولائی کے بجائے اگست میں کرانے کی قرار داد جمع
اس کے علاوہ ایوان میں ایک اور قرارداد جمع کروائی گئی جس میں کہا گیا کہ گوادر کے مقامی لوگوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ رجسٹریشن آف کوالٹی انشورنس کے قیام کے لیے فوری قانون سازی کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومت، وفاقی حکومت سے رابطہ کرے۔
یہ قرارداد بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن اراکین میر ہمل کلمتی اور اختر لانگو کی جانب سے پیش کی گئی۔
میر ہمل کلمتی اور اختر لانگو کا قرارداد میں کہنا تھا کہ جامعہ تحقیق میں سہولت فراہم کرے گی اور زراعت، ماہی گیری اور معدنیات کے شعبے کو ترقی دے گی۔
اس کے علاوہ اسمبلی میں تیسری قرارداد ثنااللہ بلوچ کی جانب سے پیش کی گئی جس میں صوبائی حکومت سے تمام تعلیمی اداروں میں مقامی زبان سمیت بلوچی، براہوی اور پشتو زبان کو تدریسی نظام متعارف کروانے کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان اسمبلی میں طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد منظور
ثنااللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ پچھلے 70 سالوں سے تعلیمی اداروں میں مقامی زبان کو نظر انداز کیا گیا اور ان تعلیمی اداروں میں ایسے استاد تعینات کیے گئے جنہیں یہ زبان پڑھانا ہی نہیں آتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ممالک تب ترقی کرتے ہیں جب وہ اپنی مادری زبان کو فروغ دیتے ہیں۔