کیا چین اور امریکا ’تجارتی جنگ‘ کے متحمل ہوسکتے ہیں؟
چینی کمیونسٹ پارٹی کی 20ویں کانگریس کے اختتام پر چینی صدر شی جن پنگ کی تیسری مدت صدارت کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس کانگریس کے آغاز سے ایک دن قبل ہی امریکا نے اپنی ’نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی‘ کا اعلان کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امریکا کی اوّلین ترجیح ’چین سے آگے نکلنا‘ ہے۔
اس پالیسی کا اعلان جس وقت کیا گیا وہ ضرور ایک اتفاق ہوسکتا ہے لیکن یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اگر چینی صدر چین کی عالمی طاقت میں اضافے کا دعویٰ کررہے ہیں تو امریکا بھی اس ’سب سے بڑے جیوپولیٹیکل چیلنج‘ یعنی چین سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہے۔
امریکا کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اب سرد جنگ کے بعد کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب بڑی طاقتوں کے درمیان آنے والی ’فیصلہ کن دہائی‘ میں عالمی نظام کے مستقبل کو تشکیل دینے کا مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔
مزید پڑھیے: چین: کمیونسٹ پارٹی کانگریس کا اختتام، شی جن پنگ کی پارٹی پر گرفت مزید مضبوط
چین اس قدر عسکری، سفارتی اور ٹیکنالوجیکل قوت رکھتا ہے کہ وہ عالمی نظام کو تبدیل کرسکے اور امریکا کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کے دستاویز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کا بنیادی اسٹریٹجک مقصد چین کے ساتھ مقابلے میں فاتح رہنا ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے امریکا اپنے ان اتحادوں کو مزید مستحکم کررہا ہے جنہیں وہ نیٹو، اوکس، کواڈ، فائیو آئیز اور اپنی انڈو پیسیفک پالیسی کے ذریعے تشکیل دے رہا تھا۔ اس حوالے سے روس کو بھی محدود کرنے کی ضرورت تھی لیکن وہ جو چیلنج پیش کررہا تھا وہ مختلف تھا۔ یہ بات درست ہے کہ روس ایک فوری خطرہ تھا اور اس کا اظہار یوکرین جنگ سے بھی ہوا لیکن اس کی صلاحیتیں چین کی طرح بہت زیادہ وسیع نہیں تھیں۔
سیاسی طور پر ایک منقسم امریکا کو تسلیم کرتے ہوئے نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی میں کہا گیا ہے کہ امریکا کو اس مقابلے کے لیے اپنی جمہوریت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ یہ دعوٰی کیا گیا ہے کہ اس اسٹریٹجی میں ’خارجہ اور داخلہ پالیسی کے درمیان ایک حد کھینج دی گئی ہے‘۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ داخلی کمزوریوں کو ختم کیا جائے گا۔ جمہوریت کو درپیش چیلنج کے علاوہ اس میں ’مقامی شدت پسندوں‘ سے لاحق خطرات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں ’نسلی تعصب کا شکار‘ گروہ بھی شامل ہیں۔ یہاں داخلی استحکام لانے کا مطلب جدت لانا اور انفراسٹرکچر، صنعتوں اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کرنا ہے۔
دوسری جانب کمیونسٹ پارٹی کانگریس سے کیے جانے والے صدر شی جن پنگ کے خطاب میں بھی ملکی استحکام غالب رہا۔ ترقی کو ترجیح دیتے ہوئے انہوں نے جدت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری پر توجہ دینے کے ذریعے ’بہترین‘ معاشی ترقی پر زور دیا۔ لیکن انہوں نے مشکل حالات میں راستہ بنانے اور امن کے دوران خطرات سے نمٹنے کی تیاری کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ’عالمی معیار کی فوج‘ تیار کرنے کی کوششوں کو تیز تر کرنے کا بھی کہا۔
امریکا اور چین کی جانب سے جن مقاصد کا اعلان کیا گیا ہے وہ کسی صورت بھی حیران کن نہیں ہیں۔ اسی طرح دونوں کی جانب سے اس مقابلے کے مزید سنجیدہ مرحلے کے لیے خود کو تیار کرنے کی کوششیں بھی حیرانی کا باعث نہیں ہیں۔ دونوں ممالک ہی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مقابلہ ایک بہت ہی غیر مستحکم عالمی ماحول میں ہورہا ہے۔
مزید پڑھیے: چین- امریکا تعلقات کا مستقبل کیا ہے؟
طویل مدت میں دیکھا جائے تو تائیوان پر دونوں ممالک کا مؤقف ان کے باہمی تعلقات اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے زیادہ نتیجہ خیز ہوگا۔ اس حوالے سے چینی صدر شی جن پنگ نے بالکل واضح بات کی۔ انہوں نے ’آنے والے طوفان‘ سے خبردار کیا اور تائیوان کی آزادی کے حوالے سے چین کی مخالفت پر زور دیتے ہوئے ایک اسٹریٹجک سرخ لکیر کھینچ دی۔
انہوں نے کہا کہ چین تائیوان کا پُرامن الحاق چاہتا ہے اور ایسا کس وقت کیا جائے گا یہ فیصلہ چین کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین طاقت کے استعمال اور دیگر اقدامات اٹھانے کا حق رکھتا ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ایسا تائیوان کے عوام کے لیے نہیں بلکہ ’تائیوان کی آزادی چاہنے والے چند علیحدگی پسندوں اور مداخلت کرنے والی بیرونی قوتوں‘ کے خلاف ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکا کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی میں ون چائنا پالیسی کا اعادہ کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ امریکا تائیوان کی آزادی کی حمایت نہیں کرتا۔ تاہم اس اسٹریٹجی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا اسٹیٹس کو میں تبدیلی کی کسی بھی یکطرفہ کوشش کی مخالفت کرے گا۔ صدر بائیڈن کے بیانات اور امریکا کے اشتعال انگیز اقدامات چین کے لیے بے چینی کا سبب ہیں اور چین ان بیانات کو ون چائنا پالیسی سے متصادم سمجھتا ہے۔
امریکی صدر بائیڈن بارہا کہہ چکے ہیں کہ اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو وہ فوجی قوت استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ خود مغربی تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات امریکا کی ’اسٹریٹجک ابہام‘ کی پالیسی کے برعکس ہیں جس کے تحت تائیوان کی سلامتی کے بارے میں آواز اٹھائی جاتی ہے لیکن عسکری قوت استعمال کرکے تائیوان کا دفاع کرنے کی بات نہیں کی جاتی۔
حال ہی میں امریکا نے تائیوان کو ایک ارب ڈالر کے ہتھیار دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان امریکا کی ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی اور دیگر اراکین کانگریس کے متنازع دورہ تائیوان کے فوراً بعد سامنے آیا۔ ان دوروں کی چین نے شدید مذمت کی اور طاقت کے اظہار کے طور پر تائیوان کے اطراف میزائل تجربات بھی کیے۔ اب امریکی کانگریس تائیوان کو 5 سال کے لیے 10 ارب ڈالر کی فوجی امداد دینے کی منظوری دینے والی ہے۔
اگرچہ تائیوان امریکا-چین مقابلے کا سب سے زیادہ خطرناک میدان ہے لیکن دیگر محاذوں پر بھی تناؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ امریکا ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری حاصل کرنا چاہتا ہے اور نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی میں بھی اس حوالے سے چین کو شکست دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں امریکا نے امریکی کمپنیوں کو چپ اور اس حوالے سے دیگر جدید آلات چین برآمد کرنے سے روکنے کے لیے وسیع اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد چین کی سیمی کنڈکٹر بنانے کی صنعت کو مفلوج کرنا تھا جو اسمارٹ فون اور گاڑیوں سے لے کر سُپر کمپیوٹر تک میں استعمال ہونے والے سرکٹ اور چپ تیار کرتی ہے۔
سیمی کنڈکٹر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے لیے بھی اہم ہوتے ہیں اور امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ اس شعبے میں چین امریکا سے آگے ہے۔ اس ’چپ وار‘ میں لگائی جانے والی پابندیوں کو 1990ء کی دہائی کے بعد سے چین کو ہونے والی ٹیکنالوجی کی برآمدات کے حوالے سے ’امریکی پالیسی کی سب سے بڑی تبدیلی‘ کہا جارہا ہے۔ اس کے جواب میں چینی صدر نے کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کے میدان میں خود انحصاری کا وعدہ کیا ہے۔
مزید پڑھیے: چین یا امریکا؟ کسی ایک ملک کا انتخاب پاکستان کے لیے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟
امریکا کے اس اقدام سے خود امریکی کمپنوں کو بھی نقصان ہوگا۔ یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ واشنگٹن ہائی اینڈ ٹیکنالوجی ڈی کپلنگ میں کس حد تک جانے کے لیے تیار ہے اور کیا دوسرے ممالک کی ہائی ٹیک کمپنیوں سے اس اقدام کے بارے میں مشاورت نہیں کی گئی، اور کیا وہ ان یکطرفہ اقدامات پر عمل کریں گی؟ دنیا بھر کے ممالک کے لیے اس کے دُور رس اثرات ہوں گے خاص طور پر اگر اس اقدام کے نتیجے میں ڈیجیٹل دنیا میں تقسیم پیدا ہوگئی۔
بہرحال ان میں سے کسی بھی بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ دونوں عالمی طاقتیں معاشی طور پر ایک دوسرے پر منحصر نہیں رہیں گی۔ چین امریکا کے لیے درآمدات کا ایک اہم ذریعہ ہے جو اس کے شہریوں کو سستی اشیا مہیا کرتا ہے۔ چین اب بھی امریکی پیداوار اور اشیا کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔ چین سے ہونے والی درآمدات پر محصولات بڑھا کر امریکا نے جو تجارتی جنگ شروع کی اور چین نے اس کا جو جواب دیا اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوئی۔
چین کے ساتھ تجارت کرکے امریکی کمپنیوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح چین بھی ٹریژری سیکیورٹیز کی مد میں تقریباً ایک کھرب ڈالر کا امریکی قرض رکھتا ہے۔ یوں ان ممالک کا معاشی طور پرایک دوسرے سے لاتعلق رہنا بہت مشکل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقیقت دنیا کی 2 بڑی طاقتوں میں بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کافی ہے؟ اور کیا ٹیکنالوجی کی جنگ میں مصروف رہنے کے باوجود یہ حقیقت ان دونوں ممالک کو، بقول ہینری کسنجر، ’باہمی ارتقا‘ پر راضی کرسکتی ہے؟
یہ مضمون 24 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔