توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان نے دانستہ الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کے تفصیلی تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر الیکشن ایکٹ 2017 کی خلاف ورزی کی ہے۔
ای سی پی نے 21 اکتوبر کو عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، تاہم 36 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا گیا تھا، جس پر سوالات اٹھے تھے کہ کیا یہ متفقہ فیصلہ تھا، اور اختلافی نوٹ کے حوالے سے قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے مبہم بیان جمع کروایا، عمران خان نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن137 (اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات جمع کروانا)، سیکشن167 (کرپٹ پریکٹس) اور سیکشن 173 (جھوٹا بیان اور ڈیکلیریشن جمع کروانا) کی خلاف ورزی کی ہے، انہوں نے مالی سال 21-2020 میں اثاثے اور واجبات کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں غلط بیان اور ڈیکلیریشن جمع کروایا، لہٰذا عمران خان کو آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے۔
تحریری فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ عمران خان نے توشہ خانہ کے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے اور نہ حاصل رقم سے آگاہ کیا۔
فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن میں غلط بیان اور ڈیکلیریشن جمع کروایا۔
یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قرار دے دیا
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ بینک اکاؤنٹ میں موصول رقم تحائف کی متعین قیمت سے مطابقت نہیں رکھتی، عمران خان نے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
ای سی پی نے تحریری فیصلے میں بتایا کہ عمران خان کے مطابق تحائف 2 کروڑ 15 لاکھ 64 ہزار میں خریدے جبکہ کابینہ ڈویژن کے مطابق تحائف کی مالیت 10 کروڑ 79 لاکھ 43 ہزار تھی۔
فیصلے کے مطابق عمران خان کے بتائے گئے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اسٹیٹ بینک سے منگوائی گئیں۔
توشہ خانہ ریفرنس کے تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مالی سال 19-2018 کے اختتام پر عمران خان کے اکاؤنٹ میں 5 کروڑ 16 لاکھ روپے تھے، عمران خان کے اکاؤنٹ میں موجود رقم تحائف کی مالیت کی نصف تھی۔
تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ عمران خان، گوشواروں میں کیش اور بینک کی تفصیل بتانے کے پابند تھے جو انہوں نے نہیں بتائی۔
مزید کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے گوشوارے بینک ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے، عمران خان نے وضاحت نہیں دی کہ گوشواروں میں غلطی غیر ارادی تھی۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ آج ہی معطل کرنےکی استدعا مسترد
فیصلے میں بتایا گیا کہ عمران خان نے تسلیم کیا کہ مالی سال 20-2019 میں تحائف ظاہر نہیں کیے اور نہ ہی فروخت سے حاصل رقم بتائی۔
فیصلے کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کے بقول تمام تفصیلات ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کردہ ہیں۔
لہٰذا یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ انہوں نے دانستہ طور پر حقائق چھپائے اور جھوٹی ڈیکلیریشن جمع کروائی، جس کے آئین اور قانون کے تحت سنگین نتائج ہوتے ہیں۔
ای سی پی نے کہا کہ عمران خان نااہل قرار پائے، عمران خان کو قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کی جاتی ہے، الیکشن ایکٹ کی متعلقہ سیکشنز کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص یا قومی اسمبلی اسپیکر کی جانب سے کسی معاملے پر اعتراض اٹھائے جانے والے کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے خلاف اثاثوں اور واجبات کے گوشوارے میں چھپانے، جھوٹے یا غلط بیان سے متعلق ریفرنس پرانکوائری کر سکتاہے۔
یاد رہے کہ 21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے متفقہ فیصلہ سنایا تھا تاہم فیصلہ سناتے وقت 4 ارکان موجود تھے کیونکہ رکن پنجاب بابر حسن بھراونہ طبعیت خرابی کے باعث آج کمیشن کا حصہ نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان
فیصلے سناتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان کو جھوٹا بیان جمع کرانے پر آرٹیکل 63 (ون) (پی) کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے جہاں اس آرٹیکل کے مطابق وہ رکن فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب کیے جانے یا چنے جانے کے لیے اہل نہیں ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان آرٹیکل 63 ون پی کے تحت نا اہل ہیں، سابق وزیراعظم نے جھوٹا بیان اور ڈیکلیئریشن جمع کروائی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 اور 173 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور توشہ خانہ سے حاصل تحائف اثاثوں میں ڈیکلیئر نہ کرکے دانستہ طور پر حقائق چھپائے۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل عمران خان کی جانب سے نااہلی کے خلاف بیرسٹر علی ظفر نے درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی تھی جس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
عمران خان کی توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی کے خلاف درخواست پر آج سماعت ہوئی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سےعمران خان کی نااہلی کا فیصلہ آج ہی معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی چیئرمین 30 اکتوبر کو این اے-45 کرم ایجنسی کے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے نااہل نہیں ہیں۔
توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے دائر کیا جانے والا توشہ خانہ ریفرنس حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
واضح رہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔