سوات میں عسکریت پسندوں کی واپسی: سابق سینیٹر نے سیکیورٹی اداروں پر سوالات اٹھا دیے
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے سوال اٹھایا ہے کہ عسکریت پسندوں کی سوات میں واپسی کے وقت سیکیورٹی ادارے کہاں تھے؟ دہشت گردی کے خلاف سوات کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور شہریوں نے بڑی تعداد میں سڑکوں پر احتجاج کیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے طالبان کے ساتھ کسی بھی طرح کی ڈیل اور مذاکرات کو مسترد کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی واپسی ایک ’نئی گیم‘ ہے اور امریکا اور برطانیہ، چین کو روکنے کے لیے پختون عوام کا خون بہانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’ہم امن چاہتے ہیں‘، سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف مظاہرہ
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں طالبان کی جانب سے 70 ہزار پاکستانی قتل ہوئے جن میں 95 فیصد تعداد پختون عوام کی ہے۔
لاہور میں ’افغان طالبان کے ساتھ ڈیل اور اس کا نتیجہ‘ کے عنوان پر اجلاس منعقد کیا گیا جس میں سابق سینیٹر نے دعویٰ کیا کہ ایک ہزار سے زائد عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کو طالبان کی جانب سے قتل کیا گیا، لیکن ایک بھی ملزم کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
افغانستان کی حالیہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے افراسیاب خٹک نے کہا کہ افغان تنازع آج بھی بین الاقوامی سطح پر زیر بحث ہے۔
پاکستان میں سابق افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیل وال نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آںے کے بعد کسی نے بھی طالبان کو چیلنج نہیں کیا، اس لیے ان کو کسی کے ساتھ مذاکرات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت کو خواتین کے حقوق کے علاوہ بین الاقوامی برادری سے کوئی دباؤ نہیں ہے، عسکریت پسند گروپ پر داعش یا القاعدہ کے خلاف کارروائی پر بھی کوئی دباؤ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: افغان طالبان کا جنم سے عروج تک کا سفر
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سابق حکومت کی ناقص کارکردگی اور کئی عرصے سے کمزور قیادت پر افغان عوام شدید غصے میں تھے۔
تاہم بین الاقوامی سطح پرطالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے مستقبل میں طالبان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ حکومت کو اندرونی معاملات پر بھی حکومت کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔
’طالبان کے پاس سب کچھ ہے‘
افغان ویمن نیٹ ورک کی بانی محبوبہ سراج کا کہنا تھا کہ طالبان اپنی حکومت میں خواتین کے حوالے سے نرمی کا مظاہرہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے سب کچھ موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام، فوجیوں کے لیے پیسے، خوراک اور بہترین زندگی گزارنے کے لیے طالبان کو رسائی حاصل ہے، طالبان خواتین اور ان کے وجود پر یقین نہیں رکھتے تو پھر وہ حکومت میں ان کی شمولیت پر کیوں راضی ہوں گے؟
مزید پڑھیں: وعدے پورے کریں تو طالبان حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے، امریکا
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے افغانستان کے عوام کو شامل کیے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے۔
اقوام متحدہ کی خواتین کی مشیر اور قانونی ماہر جسٹینا ڈھلون کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کی ایک وجہ وہاں کی خواتین کی پسماندگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے کئی فیصلوں میں خواتین کو شامل نہیں کیا جاتا، وہ اپنے حق کے لیے کھڑی نہیں ہوسکتیں لیکن آج بھی خواتین بڑی قیمت چکا کر اپنے حق کے لیے آواز بلند کررہی ہیں۔
انہوں نے افغان حکومت کے فیصلوں میں خواتین کی شمولیت نہ ہونے کے حوالے سے کہا کہ طالبان کے آنے کے بعد خواتین کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تمام وزارتوں اور کمیشن کو ختم کردیا گیا، خواتین کے وکالت کے لائسنز منسوخ کردیے گئے، اس کے ساتھ انہیں قانون کے امتحان میں بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ افغانستان میں قانون پر عمل درآمد بہت کمزور ہے، طالبان اپنے ہی وعدوں سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور خواتین کی زندگی مشکل بنا رہے ہیں۔