بجلی کی اضافی پیداواری صلاحیت 2030 تک صارفین کیلئے 16 کھرب روپے کا بوجھ بن جائے گی
توانائی کے صارفین کو بجلی کے استعمال سے قطع نظر اضافی پیداواری صلاحیت کے لیے بھی ادائیگی کرنا پڑے گی اور سال 2030 تک یہ رقم موجودہ 9 کھرب روپے سے بڑھ کر 16 کھرب روپے تک پہنچ جائے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات کا انکشاف ’پاکستان الیکٹرسٹی آؤٹ لک 2022‘ کے عنوان سے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے انرجی انسٹی ٹیوٹ کی تیار کردہ رپورٹ میں کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بجلی کی طلب میں متوقع اضافے کے باوجود ماڈل عرصے کے دوران موسمِ گرما میں 15 فیصد سے سردیوں میں 40 فیصد تک اضافی مہنگی صلاحیت کی مدت برقرار رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں: 2031 تک بجلی کی پیداوار 65 ہزار میگاواٹ تک پہنچانے کیلئے 55 ارب ڈالر درکار
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے جتنی صلاحیت پہلے ہی نصب کر رکھی ہے (بشمول وہ جو زیر تعمیر/ترقیاتی ہے)، بجلی کا نظام، ضرورت سے کہیں زیادہ اضافی گنجائش میں رہے گا۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’اس کے نتیجے میں صارفین بجلی استعمال کے بغیر اس اضافی صلاحیت کے لیے ادائیگی کرنے کے پابند ہوں گے، جو اس وقت 9 کھرب روپے ہے اور سال 2030 تک بڑھ کر 16 کھرب روپے تک پہنچ جائے گی۔‘
لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیاض چوہدری نے ڈان کو بتایا کہ ’اگر آپ لیز پر کار خریدتے ہیں اور اسے اپنے گھر لے آتے ہیں تو آپ کی لیزنگ کی مدت فوری طور پر شروع ہو جائے گی، چاہے آپ کار چلائیں یا نہ چلائیں۔‘
مزید پڑھیں: نیپرا کو 5 برسوں کے دوران بجلی کی اضافی پیداوار کی توقع
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اور یہی کچھ ہمارے پاور سیکٹر کے ساتھ ہو رہا ہے جہاں ہر کوئی بڑھتی ہوئی طلب کی اصل وجہ کو تلاش کرنے اور توانائی کی بچت کے ذریعے اسے کم کرنے کے بارے میں سوچے سمجھے بغیر پاور پلانٹس لگاتا رہا اور مستقبل میں مزید نصب کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہا۔