سوات میں کوئی دہشت گرد نہیں، صورتحال قابو میں ہے، آئی جی خیبرپختونخوا
انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے سوات میں دہشت گردوں کی موجودگی کی رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع میں امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر قابو میں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریجنل پولیس افسر آفس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیگر علاقوں سے سوات میں داخل ہونے والے مشتبہ عناصر کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے پہاڑوں پر کم از کم 18 چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: داعش-خراسان گروپ، ٹی ٹی پی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے، آئی جی خیبر پختونخوا
آئی جی پولیس نے کہا کہ سوات میں صورتحال مکمل طور پر پرامن اور قابو میں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کا مورال بلند ہے اور وہ ضلع میں کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس ملاکنڈ ذیشان اصغر، کمشنر شوکت علی یوسفزئی اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر زاہد نواز مروت سمیت سینئر حکام بھی موجود تھے۔
معظم جاہ انصاری نے کہا کہ گذشتہ چند مہینوں کے دوران مسلسل واقعات کی وجہ سے سوات کے لوگ افراتفری اور عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے احتجاج جاری ہے، مظاہروں میں سوات کے لوگوں نے امن اور تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کے احتجاج کے بعد کور کمانڈر پشاور نے سوات کا دورہ کیا اور جرگہ عمائدین سے بات چیت کی، انہوں نے کہا کہ چیف سیکریٹری نے بھی مالاکنڈ ڈویژن کے عمائدین سے ملاقات کی اور ان سے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا۔
مزید پڑھیں: ’افغانستان میں موجود داعش۔خراسان پاکستانیوں اور افغانوں دونوں پر حملے کررہی ہے‘
آئی جی خیبرپختونخوا نے سوات میں دہشت گردوں کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس باہر سے ضلع میں داخل ہونے والے مشتبہ عناصر کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے پہاڑوں پر کم از کم 18 چوکیاں قائم کر رہی ہے۔
’اسکول وین حملہ دہشت گردی نہیں، خاندانی تنازع کا نتیجہ تھا‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 10 اکتوبر کو گلی باغ کے علاقے میں اسکول وین پر حملہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں تھا بلکہ خاندانی تنازع کا نتیجہ تھا۔
10 اکتوبر کو تحصیل چارباغ کے علاقے گلی باغ میں موٹر سائیکل سوار 2 مسلح افراد نے اسکول وین پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں ڈرائیور حسین احمد جاں بحق اور اسکول کے طلبہ زخمی ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سوات میں اسکول وین پر فائرنگ سے ڈرائیور جاں بحق، 2 طلبہ زخمی
فائرنگ کے واقعے کے بعد سوات اور خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، سیاسی کارکنان، سول سوسائٹی کے ارکان، اساتذہ اور طلبہ واقعے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے حملہ آوروں کا سراغ لگانے کا مطالبہ کیا۔
آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ سوات کے لوگوں نے 2007 میں دہشت گردی کی وجہ سے بہت مشکل اور سخت وقت کا دیکھا، وہ ان حالیہ واقعات کو برداشت نہیں کر سکتے، وہ دوبارہ 2007 اور 2008 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے وہ حملے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
انہوں نے کہا کہ سوات پولیس کے بعد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے واقعے کی مکمل تحقیقات کی، انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں وزیر اعلیٰ محمود خان اور انسپکٹر جنرل آف پولیس آفس نے مکمل تعاون کیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ پولیس اور سی ٹی ڈی نے اس کیس کو سنجیدگی سے لیا اور اس کی سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کی، شواہد اور تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ کوئی دہشت گردانہ حملہ نہیں تھا بلکہ غیرت کے نام پر رشتہ داروں کے درمیان ہونے والا خاندانی تنازع کا نتیجہ تھا، انہوں نے مزید کہا کہ اسکول وین ڈرائیور کو مبینہ طور پر اس کے بہنوئی نے قتل کیا۔
معظم جاہ انصاری نے کہا کہ ملزم وین ڈرائیور کو نشانہ بنانے کے بعد 16 اکتوبر کو دبئی فرار ہوگیا تھا جب کہ پولیس نے قتل میں ملوث ایک شخص کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مرکزی مجرم کو واپس لانے کے لیے متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے واردات میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور موٹر سائیکل بھی برآمد کر لی۔