• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

'لانگ مارچ' میں کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو مداخلت کریں گے، چیف جسٹس

شائع October 20, 2022
وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو : سپریم کورٹ ویب سائٹ
وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو : سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو ‘جہاد’ قرار دیے گئے منظم لانگ مارچ سے روکنے کے لیے عبوری حکم جاری کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو مداخلت کریں گے۔

عمران خان کے خلاف ’آزادی مارچ‘ کے حوالے سے عدالتی حکم کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر وفاقی حکومت کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ ملک کو سب کیلئے یکساں بنانے کی کوشش کر رہی ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ درخواست پہلے والی درخواست کا تسلسل ہے، ‏گزشتہ دھرنے کے دوران شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے، بیان حلفی دیا گیا تھا کہ شہریوں کو پریشانی نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کا حکم ایک مخصوص جگہ تک تھا لیکن دھرنا ڈی چوک تک لایا گیا، جب مخصوص جگہ پر نہ گئے اور ڈی چوک کی جانب آئے تو مالی نقصان ہوا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کا 25 مئی کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور استدعا کی کہ عدالت ان کو سزا دے جنہوں نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی۔

مزید پڑھیں: عدالت نے نظریہ ضرورت دفن کر کے جمہوریت کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا، چیف جسٹس

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ کی توہینِ عدالت کی درخواست ہے، سپریم کورٹ میں عمران خان کے لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی، اس درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی لیکن یقین دہانی کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک کی کال دی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے حکم پر سری نگر ہائی وے گراؤنڈ کے راستے کھول دیے گئے تھے، سری نگر ہائی وے کا گراؤنڈ انہوں نے خود مانگا تھا، کارکنان کال پر ڈی چوک کی جانب آگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ کارکنان ریڈ زون کی جانب آئے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مظاہرین کے ریڈ زون کی جانب آنے پر 25 مئی کی رات متفرق درخواست دائر کی جس میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی استدعا کی، عدالتی کارروائی کے دوران وکلا تحریک انصاف قیادت کے ساتھ رابطے میں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کے فیصلوں پر تنقید کریں، ججز پر نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عبوری آرڈرز کس لیے دیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عمران خان تعلیمی اداروں میں طلبہ اور عوام کو اکسا رہے ہیں۔

‏چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک عدالت ہیں، ‏آپ کے مطابق عدالتی احکامات کی پہلے ہی خلاف ورزی کی جاچکی ہے، آپ ایگزیکٹو اتھارٹی ہیں، اُس وقت عدالتی احکامات پر انحصار کر رہے تھے، ‏موجودہ صورتحال میں آپ کو اختیار ہے کہ آپ روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏25 مئی کے واقعے میں 13 افراد زخمی ہوئے، عوامی املاک کو نقصان ہوا، کیس داخل نہ ہوا، ‏دوسرے دن عمران خان صبح سویرے واپس چلے گئے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے میں رپورٹس کا جائزہ لیں گے، آپ اپنے آپ کو قانون کے مطابق تیار کریں۔

مزید پڑھیں: دوست مزاری کی رولنگ کالعدم کرنے پر سخت ردعمل آیا مگر تحمل کا مظاہرہ کیا، چیف جسٹس

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد میں آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کی پولیس بھی داخل ہوئی تھی۔

‏اس دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو پولیس اور انتظامیہ کی جمع کردہ رپورٹس فراہم کیں، جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ یہ خفیہ رپورٹس ہیں، ان کا جائزہ لیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی حکمنامے میں کارکنان کی پکڑ دھکڑ سے روک دیا گیا، عدالت نے پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے کارکنان کو پرسکون رہنے کی بھی ہدایت کی، سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ فی الحال تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں آئی ایس آئی، آئی بی، آئی جی اسلام آباد وزارت داخلہ اور چیف کمشنر سے رپورٹ طلب کی کہ آیا پی ٹی آئی قیادت نے یقین دہانی کی خلاف ورزی کی یا نہیں، متعلقہ اداروں نے رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرائیں، مجھے ان رپورٹس کی کاپی نہیں مل سکی۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی معاملات میں الیکشن کمیشن اسپیشلسٹ ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹس کی کاپی آپ کو فراہم کردی جائے گی، آپ کو کاپی ملنے کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری عدالت سے عبوری حکم کی بھی استدعا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عبوری حکم جاری کریں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کو جہاد قرار دے رہے ہیں، وہ اپنی تقاریر سے لوگوں کو اکسا رہے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے، احتجاج کرنا بنیادی حق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان ہے، آپ قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں، شہر کے علاقوں کے تحفظ کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں، ابھی تک تو فی الحال تقاریر ہیں۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ آپ شہری علاقوں میں جہاں خطرات ہیں وہاں اقدامات کریں، رپورٹس میں بڑے ٹھوس جوابات دیے گئے ہیں، 31 شہری 25 مئی کو تصادم سے زخمی ہوئے، عمران خان نے اگلی صبح لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: عوام نے 5 سال کیلئے منتخب کیا، پی ٹی آئی پارلیمان میں جاکر کردار ادا کرے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ جب لوگ ہوں تو آپ کی استدعا ہونی چاہیے کہ ہجوم کو روکیں، ابھی تو کوئی ہجوم نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹس کے مطابق 300 کے قریب افراد ریڈ زون کی جانب داخل ہوئے تھے، بظاہر لگتا ہے کہ وہ مقامی لوگ تھے، اگر احتجاج کرنے والے ہوتے تو زیادہ ہوتے۔

انہوں نے اٹارنی جنر ل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب صورتحال سامنے آئی تو ہم نے چھٹی والے دن عدالت لگائی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنر ل کو ہدایت دی کہ آپ کو اس صورتحال میں مضبوط دلائل دینے ہوں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ صورتحال ایسی ہے جس میں سب کو سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، جمہوریت معیاری قیادت پیدا کرتی ہے، ہم نے ہمیشہ قانون کی بات کی ہے، ہم سیاسی کردار نہیں ہیں اور نہ ہی سیاسی اقدامات لے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کے فیصلوں پر تنقید کریں، ججز پر نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال

چیف جسٹس نے کہا کہ جب بھی ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی پہنچیں گے، عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں، ہمارا کام توازن رکھنا ہے، احتجاج کا حق بھی مشروط ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی رہنما نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہیں، آئین اور قانون کے مطابق اقدامات اٹھانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی آکر کہہ دے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کا کوئی ارادہ نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم دوسری بار ان سے یقین دہانی لیں، انتظامیہ اپنے آپ کو صورتحال کے لیے مکمل تیار کرے، جب کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو مداخلت کریں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے رپورٹس کا جائزہ لے لیں، آپ قبل از وقت ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئے، جب کچھ ہو تو آپ عدالت کے پاس آسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: عدالت نے نظریہ ضرورت دفن کر کے جمہوریت کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا، چیف جسٹس

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کا سیلاب آسکتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں ہے عوام کا سیلاب؟ گزشتہ مرتبہ 200، 300 لوگ کلوز ایریا میں داخل ہوئے تھے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو عمران خان کے سابقہ احتجاج سے متعلق عدالتی حکم پر جمع شدہ ایجنسیوں کی رپورٹس فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے عمران خان کے خلاف عبوری حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

پس منظر

واضح رہے کہ اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔

وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کےخلاف توہین عدالت کی درخواست کی جلد سماعت کی استدعا

25 مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب 'آزادی مارچ' کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے آگے بڑھے گی ۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کےخلاف حکومت کی سپریم کورٹ میں درخواست

توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی۔

عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے مستقبل کے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع ہدایات بھی جاری کرے جس میں احتجاج کی تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی معمولات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی اور اس عزم کا اظہار شامل ہو کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر میں اپنایا ہوا لہجہ انتہائی اشتعال انگیز تھا جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا ممکنہ لانگ مارچ: عمران خان کو نظر بند کرنے کا منصوبہ تیار

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔

حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہوجائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024