• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

'عمران خان نے فوج کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر رکھنے پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟'

شائع October 20, 2022
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ملک میں  احتساب کے لیے نیب کے علاوہ دیگر ادارے بھی موجود ہیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ملک میں احتساب کے لیے نیب کے علاوہ دیگر ادارے بھی موجود ہیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی احتساب آرڈیننس کے دائرہ کار سے فوج کو نکالے جانے پر کوئی اعتراض کیوں نہیں کیا جب کہ ملک کے سب سے بڑے کاروباری ادارے وہ چلا رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جب مسلح افواج ملک کے سب سے بڑے کاروبار چلا رہی ہیں اور سب سے بڑی بیلنس شیٹس مسلح افواج کی ہیں تو انہیں نیب کے دائرہ اختیار سے کیوں باہر رکھا گیا؟ انہوں نے استفسار کیا کہ درخواست گزار نے فوج کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر رکھنے کے امتیازی سلوک پر اعتراض کیوں نہیں کیا؟

‏سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر ‏چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ‏جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ترامیم کیس: اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں، جسٹس اعجازالاحسن

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جب ایک حاضر سروس فوجی افسر کوئی کاروبار چلارہا ہے تو کسی بھی غلط کام کی صورت میں اس کے خلاف بھی نیب قوانین کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔

تاہم درخواست گزار عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے ترمیم شدہ نیب قوانین کے سیکشن 5 (این ) (فور) کا حوالہ دیا جو تجویز کرتا ہے کہ قانون کے تحت ان فوجی افسران کو کوئی رعایت نہیں دی گئی جو کسی بھی عوامی کارپوریشن جیسا کہ بینک، مالیاتی اداروں، وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کے ماتحت یا زیر انتظام کسی بھی محکمے میں کسی بھی عہدے پر تعینات ہوں یا جو مسلح افواج میں سویلین ملازم ہو۔

بینچ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے شہریوں کے بنیادی حقوق اور مفاد عامہ کے درمیان توازن کی ضرورت کو اجاگر کیا، انہوں نے کہا کہ جب وہ بعض کیسز کو دیکھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ جب کسی فرد یا ملزم کو کرپشن الزامات سے بری کیا جاتا ہے تو پورا معاشرہ نقصان اٹھاتا ہے۔

مزید پڑھیں: واپس ہونے والے تمام نیب ریفرنسز کی تفصیلات سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیکن عدالت کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیب قوانین میں ترامیم کے بعد استغاثہ کے لیے کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلانا کس قدر مشکل ہوگیا ہے اور یہ ترامیم کس طرح سے لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بنیں گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کسی شخص کا نام لیے بغیر ایک کیس کا بھی حوالہ دیا جس میں ملزم کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا لیکن مالی فوائد بے نامی داروں کے ذریعے حاصل کیے گئے جو وراثت میں ملی تھیں، اس لیے عدالت نیب ترامیم میں ٹھوس خامیوں کی نشاندہی کرنے کا کہہ رہی ہے۔

درخواست کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے خلاف انکوائریوں اور کرپشن ریفرنسز کی تیاری پر خطیر عوامی رقم خرچ کی گئی جسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'دیکھنا ہوگا نیب قانون میں ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں یا نہیں'

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ کیا سپریم کورٹ اس غیر معقول قانون کو برقرار رکھ سکتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 50 کروڑ سے کم کی کرپشن نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گی، جب کہ اگر معاملہ 50 کروڑ روپے یا اس سے زیادہ مالیت کا ہو تو اسے ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ تو کیا ہمیں غیر معقولیت کی بنا پر قانون ختم کرنا چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنے پر ملزم کسی دوسرے قانون میں پھنس جائے گا، آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتا ہے جب کہ ملک میں احتساب کے لیے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024