حقیقی آزادی والے سوچ لیں، عمران خان نے تسلیم کیا بیک ڈور مذاکرات کر رہا ہوں، مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو حقیقی آزادی کی بات کرنے والا خود تسلیم کر رہا ہے کہ میں بیک ڈور مذاکرات کر رہا ہوں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مریم اورنگزیب نے کہا کہ حقیقی آزادی والا کہہ رہا ہے کہ بیک ڈور مذاکرات کر رہا ہوں، عوام کو کہہ رہا ہے حقیقی آزادی لے رہا ہوں اور پریس کانفرنس میں خود کہہ رہے ہیں بیک ڈور مذاکرات کر رہا ہوں، کیوں کر رہے ہو، کون سے مذاکرات بیک ڈور ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ اکتوبر میں ہی ہوگا، عمران خان کی عام انتخابات کیلئے حکومت کو آخری مہلت
انہوں نے کہا کہ صدرمملکت کے عہدے کی عزت کو اپنی سیاست کے لیے متنازع بنایا ہے اور پیر پکڑتے ہو، مذاکرات کس کے ساتھ کر رہے ہیں، عوام کے سامنے بتاؤ۔
ان کا کہنا تھا کہ تم تو کہتے ہو ملک اور عوام کو آزاد کروا رہا ہوں لیکن تم بیک ڈور مذاکرات سے آزاد نہیں ہوئے تو پاکستان کے عوام کو کون سی حقیقی آزادی دلاؤ گے۔
انہوں نے کہا کہ عوام سنیں کہ عمران خان خود کہہ رہے ہیں بیک ڈور مذاکرات کر رہا ہوں، وضاحت نہیں ہے تو حقیقی آزادی والے سوچ لیں کہ جو حقیقی آزادی دلانا چاہتا ہے، وہ عوام کے مذاکرات بیک ڈور کر رہے ہیں، اس کی اتنی جرأت نہیں ہے عوام کے سامنے آکر مذاکرات کرے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ مذاکرات کیا کہ میری کرسی مجھے واپس لوٹا دو، اور کوئی مذاکرات نہیں ہیں۔
‘عمران خان افراتفری مچانے کی کوشش کر رہا ہے’
ان کا کہنا تھا کہ ایک فارن فنڈڈ فتہ جو ملک میں ہروقت انتشار، سیاسی عدم استحکام اور افراتفری مچانے کی کوشش کرتا ہے اور آج دوبارہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جو جھوٹ کا پلندہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سیاسی مخالفت میں بھول چکے ہیں اور سمجھتے ہیں پاکستان کے عوام بھی بھول جائیں کہ وہ 4 سال مسلط رہے ہیں، وزیراعظم کی کرسی پر مسلط رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 4 سال ملک کے ساتھ جو کیا، معاشی تباہی، بے روزگاری، ملک کا دیوالیہ اور ملک کے اندر اخلاقیات کا دیوالیہ ایک طرف جس سے نکلنے کے لیے کئی سال لگیں گے لیکن معاشی دیوالیہ، کشمیر کا سودا، کرپشن، لوٹ مار اور ڈاکے کی داستانیں اور کرپشن سے اٹی ہوئی فائلیں منہ پر طمانچے ہیں۔
‘6 سیٹیں جیتنے سے دارالحکومت پر یلغار کا سرٹیفکیٹ نہیں ملا’
عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ صرف اقتدار کی ہوس اور لالچ میں ایک شخص اندھا ہوچکا ہے، ضمنی انتخابات میں 8 سیٹوں میں سے 6 جیتنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو دارالحکومت میں یلغار کا سرٹیفکیٹ مل گیا حالانکہ یہ تمام سیٹیں عمران خان کی چھوڑی ہوئی سیٹیں تھیں۔
مزید پڑھیں: ضمنی انتخابات کے باوجود بھی حکومت کو کوئی خطرہ کیوں نہیں؟
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے دھونس دھمکی اور الرٹ دے کر انتخابات کا مطالبہ کریں، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی پولیس لے کر دارالحکومت پر حملہ آور ہوجائیں۔
‘ملتان اور کراچی میں بھی ریفرنڈم ہوا’
مریم اورنگزیب نے کہا کہ اگر یہ ضمنی انتخابات ریفرنڈم ہیں تو ملتان اور کراچی میں بھی آپ کے خلاف ریفرنڈ میں آیا ہے، ضمنی انتخابات ہوگئے، 6 سیٹیں جیتی ہیں تو الیکشن کمیشن کو گالیاں دیں اور کہیں وہ جانب دار ہے، یہ الیکشن شفاف نہیں اور حکومت کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کہتے ادارے جانب دار نہیں، ایکس وائی کا نام لیتے کہ انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے، تکلیف صرف آرمی چیف کی تعیناتی پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ 75 سال کی تاریخی قرضہ عمران خان نے لیا، 75 سال میں قرضے 25 ہزار ارب تھے اور 4 سال میں 45 ہزار ارب تک قرض پہنچا دیا، لوگوں کے ٹیکسی ڈرائیور بنے رہے، دوست ممالک کو ناراض کیا اور ہر جگہ کشکول لے کر گئے اور ملک کو مقروض کردیا۔
‘ہیومن رائٹس واچ کو اپنے دور کے مظالم بھی لکھیں’
وفاقی وزیر نے کہا کہ سینیٹر اعظم سواتی کے ساتھ کیا ہوا تو پچھلے 4 سال میں آپ نے جو کیا اس پر ہیومن رائٹس واچ اور عالمی تنظمیوں کو کیوں نہیں خط لکھا، قائد حزب اختلاف کو دو دفعہ گرفتار کیا، خواجہ آصف، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، سلمان رفیق، مفتاح اسمٰعیل، کامران مائیکل، مریم نواز اور حمزہ شہباز اور لوگوں کی بہنوں کو گرفتار کرکے سزائے موت کی چکیوں میں رکھا۔
انہوں نے کہا کہ آج انسانی حقوق کے بھاشن دے رہے ہیں تو اپنے دور میں رانا ثنااللہ پر 20 کلو ہیروئن ڈال دی، اس کے بعد جاوید لطیف کی 90 سالہ والدہ کو گرفتار تو کیا تو اس وقت ان کی بھی عزتیں تھیں اور آج کہہ رہے ہیں کیا غلط کیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ تمہارے لوگ تمہارے کہنے اور اشتعال انگیزی کی وجہ سے افواج پاکستان کے خلاف مہم چلائیں اور آرمی چیف کی تعیناتی متنازع بنائیں جبکہ وہ سیلاب میں لوگوں کی جانیں بچا رہے ہیں اور سرحد میں حفاظت کرتے ہیں اور ہیلی کاپٹر کے حادثے پر لوگوں کو سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا کہتے ہوں۔
‘آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق وزیراعظم کریں گے’
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں 6 آرمی چیف کی تعیناتی کی، اگر آپ کو شوق ہے تو 172 نمبر پورے کریں اور آئینی طریقے سے عدم اعتماد لاکر اپنی حکومت بناؤ۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پارلیمان کے اندر شہباز شریف کے پاس 174 سیٹیں تھیں اور آج 176 سیٹیں ہیں اور عمران خان کی 8 سیٹیں کم ہوئی ہیں، لیکن حکومت کے پاس ضمنی انتخابات کے بعد سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کا تقرر، نوازشریف سے مشاورت کے بعد آخری فیصلہ وزیراعظم کا ہوگا، خرم دستگیر
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف آئین اور قانون کے مطابق حق رکھتا تھا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کرے، آپ جیسا سازشی اور فراڈ کسی قسم کی تعیناتی کے قابل نہیں ہے۔
‘اپریل میں ملک ڈیفالٹ ہوچکا تھا’
وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان ڈیفالٹ کی بات کرتا ہے حالانکہ انہوں نے ملک کی معیشت تباہ کردی اور ملک کو ڈیفالٹ کیا، اپریل میں ملک ڈیفالٹ ہوچکا تھا لیکن اتحادی حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں ڈیفالٹ ہونے سے بچایا کیونکہ فارن فنڈنگ کے عوض تم یہ سودا کرچکے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان 10 سال سے خیبرپختونخوا میں حکومت کر رہا ہے، ایک ہسپتال، ایک یونیورسٹی دکھائیں، جھوٹ بول کر شہباز شریف کا مقابلہ کرتے ہیں، تو پنجاب جیسا ایک ہسپتال دکھاؤ جو خیبرپختونخوا میں بنایا ہو یا پنجاب میں 4 سال میں کوئی ایسا ہسپتال بنایا ہو۔
انہوں نے کہا کہ کہتے ہو نواز شریف اور زرداری کی کرپشن تو 4 سال حکومت تھی، کہتے ہو نیب اور ایف آئی اے میں بندے لگانا چاہتے ہیں، تو تم نے نہ صرف بندے لگائے بلکہ بندوں کو یرغمال بھی بنایا، اغوا اور بلیک میل کیا، وزیراعظم ہاؤس کے باتھ رومز میں لوگوں کو یرغمال بنایا۔
چیئرمین پی ٹی آئی پر الزامات عائد کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ وزیراعظم ہاؤس کو اپنی گندی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال کیا۔
‘صحافیوں کو گولیاں ماری گئیں’
ان کا کہنا تھا کہ عرفان صدیقی کے ساتھ کیا ہوا تھا، رات کے اندھیرے میں دھکے دے کر گرفتار کیا گیا تھا، جب ان کی ضمانت ہوئی تو انہیں جیل کے پچھلے دروازے سے رہا کیا کیونکہ مرکزی دروازے سے رہا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو گولیاں ماری، خواتین صحافیوں سمیت دیگر کے پروگرام بند کرا دیے، میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرکے میڈیا کو سب سے بڑا پیغام دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہیومن رائٹس واچ نے صحافت اور آزادی اظہار رائے پر عمران خان کو پریڈیٹر کہا تھا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ فریال تالپور کو عید والی رات کو گھسیٹ کر جیل میں ڈالا، مریم نواز کو والد کے سامنے ہتھکڑیاں لگوائیں، شہباز شریف کی بیٹیوں کو عدالتوں میں گھسیٹا، تمہارے گھر والوں کی عزت ہے دوسروں کی بیٹیوں کی کوئی عزت نہیں ہے، جب ہیومن رائٹس والوں کو لکھو تو یہ لکھنا ہوگا، جس سے نظریں نہیں ہٹائی جاسکتی ہیں۔
‘کسی دفتر سے این آر او نہیں بلکہ عدالت سے بریت ہوئی’
انہوں نے کہا کہ کسی دفتر سے کوئی این آر او نہیں لیا بلکہ عدالتوں نے ضمانت دی اور بری کیا ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کو کرنی ہے، جس کا طریقہ کار قانون میں وضع ہے۔
عمران خان کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی جب سے اسلام آباد پوسٹ ہوا ہے تو بڑا ظلم ہو رہا ہے، نیوٹرل، ایکس، وائی، زیڈ، میر جعفر اور اب ایک آدمی تو کون سا آدمی، اس کا نام لو۔
‘اسلام آباد میں تعیناتی ہوئی ہے تو تمہارے پاس کون تھا؟’
مریم اورنگزیب نے کہا کہ تمہارے مطابق ایک آدمی جب سے اس کی اسلام آباد پوسٹنگ ہوئی ہے اس وقت سے تمہارے ساتھ ہو رہا ہے تو تمہارے پاس کون سا آدمی تھا کہ اپوزیشن کے صف اول کے لوگ اور ان کے بچے اور بیٹیاں جیلوں میں تھیں۔
مزید پڑھیں: آرمی چیف کی تقرری: کیا تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ عمران خان تماشا کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے، اپنی مرضی کے فیصلے آئیں تو خاموشی جب خلاف فیصلے آئیں تو گالی دیتا ہے اور ملک میں فتنہ پھیلانا چاہتا ہے۔
‘ضمنی انتخابات سے حکومت مضبوط ہوئی’
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کا ضمنی انتخابات سے جمہوریت یا پارلیمان کا مقصد نہیں تھا بلکہ افراتفری پھیلانی تھی، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خود الیکشن لڑنے سے پارلیمان میں پی ٹی آئی کی 8 نشستیں کم ہوئی ہیں کیونکہ اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ اپنی پارٹی کا ٹکٹ کسی کو دے دیں، کیا 2023 کا الیکشن 272 سیٹوں پر خود لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن کرانا تھا تو 8 مارچ کو الیکشن کرانا تھا لیکن اب موجودہ حکومت اور آئین کے مطابق جب حکومت چاہے گی تب عام انتخابات ہوں گے۔