لانگ مارچ اکتوبر میں ہی ہوگا، عمران خان کی عام انتخابات کیلئے حکومت کو آخری مہلت
سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ انتخابات کا اعلان نہیں کیا گیا تو مارچ کا اعلان کروں گا اور یہ اعلان اکتوبر میں کسی بھی وقت ہوگا۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ لوگ ملک کو تباہی کی طرف لے کر جائیں گے لیکن الیکشن کا اعلان نہیں کریں گے اس لیے میں ان کو ایک مرتبہ پھر وقت دے رہا ہوں، لیکن مارچ اکتوبر سے آگے نہیں جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب سے لے کر اکتوبر میں کسی بھی وقت میں اعلان کر دوں گا، ان کو وقت دے رہا ہوں کہ ملک کی خاطر، اپنے آپ کو بچاتے بچاتے ملک کو تباہ نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے اعلان کے لیے یہ صحیح وقت ہے، اگر نہیں کریں گے تو میں مارچ کروں گا اور اس کے لیے میری تیاری تقریباً مکمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بائیڈن کا بیان امپورٹڈ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے، عمران خان
عمران خان کا کہنا تھا کہ مارچ میں پتا چل جائے گا کہ عوام کہاں کھڑے ہیں، عوام سڑکوں پر خود آگئے تو کسی کے پاس روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام ابھی تک سڑکوں پر کیوں نہیں آئے حالانکہ پچھلے 5 ماہ میں انہوں نے جو مہنگائی کی ہے وہ 50 سال میں سب سے زیادہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت ان کو ایک منظم طریقے سے احتجاج میں لے کر جاتی ہے اور واپس لے آتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ایک دفعہ جب ہم مارچ کا اعلان کریں گے تو عوام سڑکوں پر آئیں گے اور جس طرح کے عوام نکلیں گے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ اتنے عوام نکلیں گے تو پھر اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں ان سب کو جو پاکستان میں اس حوالے سے کچھ کر سکتا ہے اور ان سیاسی جماعتوں کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، ہم اکتوبر سے آگے نہیں جائیں گے، ہم فیصلہ کر چکے ہیں اور چند دنوں میں کسی بھی وقت میں اس کا اعلان کردوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کی ضرورت صرف صاف اور شفاف انتخابات ہے، جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا ملکی معیشت ٹھیک نہیں ہوگی، یہ لوگ ملک کو نہیں سنبھال سکتے، یہ لوگ الیکشن سے ڈرے ہوئے ہیں، سب نے مل کر بھی الیکشن لڑ لیا اس کے باوجود یہ الیکشن نہیں جیت سکتے، یہ ملک کو تباہی کی طرف دھکیلتے جائیں گے لیکن الیکشن نہیں کروائیں گے۔
مزید پڑھیں: کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہیں بلکہ پاکستان کا ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے، عمران خان
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سری لنکا ڈھائی کروڑ آبادی کا ملک ہے، سری لنکا میں لوگ سڑکوں پر آگئے، اگر یہاں سڑکوں پر لوگ آ گئے تو کسی کے پاس طریقہ نہیں ہے کہ اس افراتفری کو کیسے روکا جائے گا۔
ایک صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ کسی بھی سطح پر مذاکرات ہورہے ہیں، جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ کیا کہوں، مذاکرات ہو بھی رہے ہیں، اور نہیں بھی ہورہے، یعنی بیک چینل پر جو بھی ہوا ہے ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے، اور اس کی وجہ ہے کہ نواز شریف الیکشن سے ڈرا ہوا ہے، وہ جب تک فیصلہ نہیں کرے گا الیکشن نہیں ہوگا، اس کو خوف ہے کہ اگر یہ ساری جماعتیں مل کر بھی نہیں جیت سکیں، تو انہیں خوف ہے کہ الیکشن ہوں گے تو وہ ہار جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اگر یہ لمبا چلتا جائے تو تحریک انصاف کی یہ جو لہر ہے یہ نیچے آنا شروع ہو جائے گی، وہ چاہتا ہے کہ 10 مہینے یا ایک سال گزر جائے تو لہر کم ہوجائے گی تو اس کے بعد انتخابات ہوں۔
'کراچی میں پیپلز پارٹی نے کھل کر دھاندلی کی'
انہوں نے کہا کہ کل کے الیکشن کے حوالے سے یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک پلان کیا ہوا الیکشن تھا، آڈیو لیکس میں یہ چیزیں سامنے آئی تھیں کہ جدھر وہ سمجھتے تھے کہ ان کا مشترکہ ووٹ بینک ہم سے دگنا ہے، انہوں نے ان حلقوں پر الیکشن کروایا تھا، اصل میں تو سارے حلقوں میں الیکشن ہونا چاہیے تھا، اس بار انہوں نے مشترکہ امیدوار کھڑا کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے ایک حلقے میں جو الیکشن میں ہارا ہوں، وہاں پیپلز پارٹی نے کھل کر دھاندلی کی ہے، سندھ کا الیکشن کمیشن سندھ حکومت کے پے رول پر ہے، اس کے لیے ہم سپریم جوڈیشل کونسل میں گئے ہوئے ہیں، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کا کیس سنا نہیں جارہا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس میں یہ بھی آگیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا مسلم لیگ (ن) کا خاص آدمی ہے، ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں ہے، الیکشن کمشنر سے مطالبہ کرتا ہوں کہ جس طرح ڈسکہ میں 22 پولنگ اسٹیشن پر آر او نے کہا تھا کہ ٹھیک نہیں ہوا، یہاں 400 پولنگ اسٹیشن تھے، کراچی کی نشت پر بھی دوبارہ الیکشن کروانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن نہیں ریفرنڈم تھا کیونکہ ووٹرز کو پتا نہیں تھا کہ ہم نے اسمبلی میں نہیں بیٹھنا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم اس وقت نئے الیکشن چاہتی ہے، قوم اس اسمبلی کو نہیں مانتی۔
یہ بھی پڑھیں: ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان
انہوں نے کہا کہ جو بھی اس ملک میں قوتیں ہیں، اور ملک کا سوچ رہی ہیں، یہ لوگ تو ملک کا نہیں سوچ رہے، اصل مسئلہ پاکستانیوں کا ہے، اور ایشو ان اداروں کا ہے جن کا اسٹیک پاکستان میں ہے، کیا وہ دیکھ نہیں رہے کہ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟
سابق وزیراعظم نے کہا کہ پہلے جنرل مشرف نے ان کو این آر او دے کر اس ملک کو نقصان پہنچایا، ان کے 10 سالوں میں پاکستان کا چار گنا زیادہ قرضہ بڑھ کر ملک سے بھاگ گئے، اور جب ملک اٹھ رہا تھا تو پھر ان کو این آر او دلوایا، ساری قوم تماشا دیکھ رہی ہے کہ ملک میں چھوٹے چور کو پکڑا جاتا ہے، انصاف کا نظام بڑے چور کو نہیں پکڑ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ سارے اداروں کو کہنا چاہوں گا کہ جتنی دیر آپ ان کو بیٹھنے دیں گے، جتنی دیر یہ ہم پر مسلط رہیں گے ہمارا ملک نیچے جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ عمران خان نے پاکستان کو آئسولیٹ کر دیا ہے، میں جب امریکا گیا تھا کہ جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے مجھے اور میرے وفد کو عزت دی تھی، سب سے پوچھ لیں، میرے ساتھ جنرل باجوہ بھی گئے تھے ان سے پوچھ لیں کہ کبھی کسی پاکستانی وزیر اعظم کو اس طرح کی عزت دی ہے، اس کو سخت جواب دیا تھا اس کے باوجود وہ عزت ان لوگوں کی کرتے ہیں، جو اپنے ملک کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے امریکی صدر جو بائیڈن کے پاکستان سے متعلق حالیہ ریمارکس کے تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہر کر کروڑوں روپیہ خرچ کیا، سندھ کا برا حال ہے، بلاول بھٹو پوری دنیا کا چکر لگا رہا ہے، کیا فائدہ ہوا اس سفارتکاری کا، جو بائیڈن جن ممالک چین اور روس کو مخالف سمجھتے ہیں پاکستان کو اس کے ساتھ بریکٹ کردیا، کدھر گئی آپ کی سفارتکاری، اور پھر جو اس نے خطرناک بات کی ہے، جو بائیڈن نے یہ کہا کہ پاکستان دنیا کی خطرناک جگہ ہے، اس کے ساتھ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی بات کر دی، اب یہ پاکستان کے ساتھ پرانا پروپیگنڈا چل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1980 کی دہائی میں مغربی اخباروں میں اسلامک بم کا پروپیگنڈا چلتا تھا، میں نے پانچ مہینے پہلے کہا تھا کہ یہ ہمیں بیل آؤٹ کرنے کے لیے جو ہم سے قیمت مانگیں گے، وہ صرف ایک چیز رہ جائے گی، کہ ہم ان کو وہ قیمت ادا کریں، آج یوکرین کا حال دیکھ لیں، یوکرین کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارا نیوکلیئر پروگرام نہ لیتے تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا، تو یہ ہمارا قومی سلامتی کا ایشو ہے۔
مزید پڑھیں: ساڑھے 3 سالہ حکومت میں ذمہ داری میری تھی لیکن حکمرانی کسی اور کی، عمران خان
عمران خان نے کہا کہ آج ہماری سینئر لیڈرشپ کا اجلاس ہوا، جو کچھ اعظم سواتی کے ساتھ کیا گیا، اعظم سواتی نے ٹوئٹ میں جذبات میں آکر کوئی بات کہہ دی ہے تو اس کے لیے قانون بنے ہوئے ہیں، 3 بجے ایف آئی اے کے لوگ آئے، اور پچھتر سال کے آدمی کو پوتے اور پوتی کے سامنے مارنا شروع کیا، پھر اسے پولیس اسٹیشن لے کر گئے اس کے بعد ایجنسی کے ہاتھوں پکڑا دیا، یہ کونسا پاکستان کا آئین کہتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ایجنسوں نے مزید اس پر تشدد کیا، ادھر جاکر اس کو ننگا کیا اور ٹارچر کیا، ملک کے سینیٹر کا کتنا بڑا جرم تھا جو اس سے یہ کیا گیا، ساری دنیا کے بڑے بڑے اخباروں میں یہ خبر گئی کہ پاکستان کے سینیٹر پر تشدد کیا اور جیل میں ڈالا کیونکہ اس نے آرمی چیف پر تنقید کردی، دنیا میں آرمی چیف پر تنقید کرنے پر یہ ہوتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ دنیا میں لوگ اس پر حیرت کر رہے ہیں، اور اس سے سب سے بڑی بدنامی پاکستان اور اس کی جمہوریت کی ہے، اس کے بعد پاکستانی فوج اور آرمی چیف کی بدنامی ہو رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج آؤٹ آف کنٹرول ہے، اس کا مطلب وہ قانون کے اوپر ہیں اور کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
'سینیٹر اعظم سواتی کے معاملے پر عالمی تنظیموں سے رابطہ کریں گے'
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا کام انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے، ان سے کہتا ہوں کہ شہباز گِل اور جمیل فاروقی نے بتایا تھا تو آپ کو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا، اور اب ملک کے پچھتر سالہ سینیٹر، نانا اور دادا سے یہ کیا گیا، کیا انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی نہیں؟ ہم اس معاملے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے خصوصی اجلاس بلائیں گے، دوسرا ہمارے سینیٹرز سپریم کورٹ میں پٹیشن فائل کریں گے، تیسرا ہم عالمی تنظیموں سے رابطہ کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ کون چاہتا ہے کہ اپنے ملک کے اداروں کے ساتھ مقابلہ ہو؟ وہ تو اپنا اور ملک کا ہی نقصان ہے، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا عدلیہ، فوج یا کسی بھی ادارے کے ساتھ تصادم ہوتا ہے، اس میں نقصان تو ملک کا ہے، ہمیں دیوار سے بھی لگایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے کوشش کی ہے کہ کوئی ایسی چیز نہ کریں جس سے اداروں کو نقصان پہنچے۔
'آرمی چیف کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے'
آرمی چیف کے تقرر سے متعلق سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری جیسے لوگ ملک کے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے کوالیفائیڈ ہیں؟ آرمی چیف کا تقرر پاکستان کی قومی سلامتی کے حساب سے بہت اہمیت رکھتا ہے، آرمی چیف کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے۔