• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

طالبان کے ہاتھوں سنگسار کیے جانے کا خطرہ، افغان خاتون نے خودکشی کرلی

شائع October 17, 2022
جس شخص کے ساتھ خاتون گھر سے بھاگی تھی اسے 13 اکتوبر کو پھانسی دے دی گئی— فائل فوٹو: اے ایف پی
جس شخص کے ساتھ خاتون گھر سے بھاگی تھی اسے 13 اکتوبر کو پھانسی دے دی گئی— فائل فوٹو: اے ایف پی

مقامی میڈیا نے مقامی طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ افغانستان کے صوبہ غور میں خاتون نے گھر سے بھاگنے پر طالبان فورسز کی جانب سے سنگسار کرکے قتل کیے جانے کے خوف سے خودکشی کرلی۔

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی نے 'خاما پریس' کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طالبان نے شادی شدہ شخص کے ساتھ گھر سے بھاگنے والی خاتون کو جمعہ کے روز سنگسار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس سے قبل ہی لوگوں کے سامنے تذلیل سے بچنے کے لیے خودکشی کرلی۔

حکام نے مزید بتایا کہ جس شخص کے ساتھ وہ خاتون گھر سے بھاگی تھی اسے 13 اکتوبر بروز جمعرات پھانسی دے دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا طالبان پر خواتین عملے کو ہراساں کرنے کا الزام

خاما پریس کے مطابق طالبان کے صوبائی پولیس چیف برائے غور کے قائم مقام ترجمان عبدالرحمٰن نے کہا کہ خواتین کی جیل نہ ہونے کی وجہ سے خاتون کو سرعام سنگسار کرنے کی سزا سنائی گئی۔

طالبان سیکیورٹی اہلکار کے مطابق سزا ملنے سے قبل ہی خاتون نے اسکارف سے گلا گھونٹ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف صوبوں میں خواتین کے گھروں سے بھاگنے کی اطلاعات میں اضافہ ہوا جب کہ طالبان حکومت نے انہیں سنگسار کرنے یا سرعام کوڑے مارنے کا فیصلہ کیا۔

خاما پریس کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ طالبان کی جانب سے خواتین پر متعدد پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے جن کا آغاز تعلیم پر پابندیوں سے ہوا تھا جن کے تحت چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کے اسکول جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کا خواتین کو عوامی مقامات پر برقع پہننے کا حکم

گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھلانے والی طالبان حکومت نے خواتین کے حقوق اور آزادیوں پر قدغنیں لگائی تھیں اور معاشی بحران اور پابندیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر خواتین کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔

ان اقدامات کے نتیجے میں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو انسانی حقوق سے متعلق بحران کا سامنا ہے، وہ عدم امتیازی سلوک، تعلیم، نوکری، عوامی سطح پر شرکت اور صحت کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

میڈیا میں کام کرنے والی تقریباً 80 فیصد خواتین اپنی ملازمتوں سے محروم ہوچکی ہیں اور ملک میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ خواتین صحت، تعلیم اور سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن یو این اے ایم اے نے اگست میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں طالبان دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کی منظر کشی کی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کے کھیلوں پر پابندی لگا دی

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے طالبان حکام پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ وہاں کام کرنے والے عملے کی خواتین کو ڈرا رہے ہیں اور ہراساں کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کی جانب سے یہ دعویٰ اس وقت سامنے آیا جب افغانستان میں موجود اس کے عملے کی 3 خواتین کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی 3 افغان خواتین کو طالبان حکام کے مسلح سیکیورٹی اہلکاروں نے پوچھ گچھ کے لیے باری باری عارضی طور پر حراست میں لیا۔

13 ستمبر کو وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے یونیورسٹی طالبات کے لیے ’ڈریس کوڈ‘ کا اعلان کرتے ہوئے ان کے لیے ’پردہ‘ لازمی قرار دیا تھا جس کے خلاف خواتین اور خصوصی طور پر طالبات کے لیے متعارف کرائے گئے ’ڈریس کوڈ‘ کے خلاف وہاں کی عورتوں نے سوشل میڈیا پر احتجاج کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024