خیبرپختونخوا: قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں کم ٹرن آؤٹ ریکارڈ
خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے دوران ٹرن آؤٹ کم رہا جہاں پولنگ اسٹیشنز پر رش نہیں دیکھا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این اے 31 پشاور کا حلقہ شہری علاقوں پر مشتمل ہے تاہم زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز پر گہما گہمی نظر نہیں آئی جس سے بظاہر ووٹرز کی ضمنی انتخابات میں عدم دلچسپی دکھائی دی۔
یہ بھی پڑھیں: 'ضمنی انتخابات کے دوران 'ووٹر ٹرن آؤٹ' میں نمایاں اضافہ'
گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول وزیر باغ کے پولنگ اسٹیشن پر تعینات ایک پولیس کانسٹیبل نے بتایا کہ ’صبح سے پولنگ کا وقت ختم ہونے تک ہم نے ووٹرز کی کوئی قطار نہیں دیکھی جو کہ عموماً عام اور بلدیاتی انتخابات میں دیکھی جاتی ہے‘۔
ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ بوتھ نمبر 4 پر اندراج شدہ ووٹوں کی تعداد ایک ہزار 908 ہے، تاہم پولنگ کا وقت ختم ہونے سے 2 گھنٹے قبل تک صرف 94 ووٹرز اپنے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آئے۔
گورنمنٹ ہائی سکول کاکشال نمبر 4 میں قائم پولنگ اسٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 ہزار 400 تھی، تاہم سہ پہر 3:30 بجے تک صرف 600 افراد نے اپنا ووٹ ڈالا۔
پشاور میں پولنگ کا عمل پرامن طور پر اختتام پذیر ہوا، پولنگ اسٹیشنز کے اندر اور باہر پولیس اور ایف سی اہلکاروں کی کافی تعداد تعینات کی گئی تھی، تاکہ ووٹرز کو سیکیورٹی فراہم کی جاسکے اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھا جاسکے۔
مزید پڑھیں: ضمنی انتخابات: پی ٹی آئی کی 8، پی پی پی کی 2، مسلم لیگ(ن) کی ایک نشست، غیرحتمی نتیجہ
خیبرپختونخوا کے ضلع پشاور، چارسدہ اور مردان میں قومی اسمبلی کے 3 حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے، الیکشن کمیشن نے ان 3 حلقوں کے لیے 979 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے تھے جن میں سے 745 کو انتہائی حساس اور 234 کو حساس قرار دیا گیا تھا۔
ان 3 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں ساڑھے 14 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جن میں 8 لاکھ 8 ہزار 38 مرد اور 6 لاکھ 42 ہزار 651 خواتین شامل ہیں۔
تینوں نشستوں پر الیکشن لڑنے والے سابق وزیراعظم اور سربراہ پاکستان تحریک انصاف عمران خان سمیت 16 امیدوار میدان میں تھے۔
979 پولنگ اسٹیشنز میں سے 429 مردوں کے لیے، 351 خواتین کے لیے اور 199 دونوں کے لیے تھے، 3 ہزار 194 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے تھے جن میں مردوں کے لیے ایک ہزار 811 اور خواتین کے لیے ایک ہزار 383 پولنگ اسٹیشنز تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم نے ضمنی الیکشن میں مل کر کامیابی حاصل کی ہے، یوسف رضا گیلانی
الیکشن کمیشن نے این اے 31 پشاور کے تمام 265 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا تھا جن میں مردوں کے 146، خواتین کے 117 اور 2 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز تھے۔
این اے 22 کے انتخابات میں 4 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سابق وزیر اعظم عمران خان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے محمد قاسم، جماعت اسلامی کے عبدالواسع اور آزاد امیدوار محمد سرور شامل تھے۔
این اے 24 سے عمران خان، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی سربراہ ایمل ولی خان، جماعت اسلامی کے مجیب الرحمٰن اور آزاد امیدوار سپارلے مہمند کے درمیان مقابلہ ہوا۔
این اے 31 کے ضمنی انتخابات میں 8 امیدواروں نے حصہ لیا جن میں عمران خان، اے این پی کے سینئر رہنما حاجی غلام احمد بلور، جماعت اسلامی کے محمد اسلم، راہ حق پارٹی کے سعید اللہ خان، تحریک جوانان پاکستان کے عبدالقادر، سابق رکن قومی اسمبلی شوکت علی شامل تھے اور آزاد امیدوار عمران خان اور شوکت علی شامل تھے۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات، خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 30فیصد رہا
حلقہ این اے 22 میں ضمنی انتخابات پرامن طور پر مکمل ہوئے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، تاہم کاٹلنگ تحصیل میں حریف جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان زبانی جھگڑوں کی اطلاع ملی، پولیس حکام کے مطابق حلقے میں ضمنی انتخابات کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سیکیورٹی کے سخت اور فول پروف انتظامات کیے گئے تھے۔
مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کے رہنما ووٹرز کو گھروں سے نکالنے میں ناکام رہے اور ٹرن آؤٹ کم رہا۔
اسفند یار ولی خان علالت کے باوجود ووٹ ڈالنے پہنچے
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اسفند یار ولی خان نے علالت کے باوجود حلقہ این اے 24 کے ضمنی انتخاب کے دوران ناری پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق علالت کے باعث سیاسی منظر نامے سے طویل عرصے سے غائب رہنے کے بعد اسفندیار ولی خان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار اور اپنے بیٹے ایمل ولی خان کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن آئے۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین ووٹرز کا کم ٹرن آؤٹ، 2 حلقوں میں پولنگ کالعدم قرار دیے جانے کا امکان
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسفند یار ولی خان نے کہا کہ وہ اپنی بیماری کے باوجود چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے باہر آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قوم فیصلہ کرے کہ وہ اپنا نمائندہ اسمبلی میں بھیجنا چاہتے ہیں یا ان کو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں جو قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے۔