ضمنی انتخابات میں شکست کے باوجود بھی حکومت کو کوئی خطرہ کیوں نہیں؟
اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت ضمنی انتخابات میں جیت چکے ہیں، اور یہ گمان کسی کو بھی نہیں تھا کہ صورتحال اس سے مختلف ہوگی۔
ان 8 حلقوں میں تقریباً 28 لاکھ ووٹ رجسٹرڈ ہیں اور تقریباً 23 لاکھ افراد نے ان انتخابات اور امیدواروں پر عدم اعتماد کا اظہارکیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہوں نے اپنی عملی یا خاموشی کی زبان سے حکومت کی حمایت کی ہے۔
میرے لیے ایک ہی لمحہ فکریہ ہے کہ عمران خان کی جماعت کے وائس چیئرمین کی صاحبزادی پر ان کے بھائی اور والد کے انتخاب میں ساتھ دینے والے افراد نے کیونکر عدم اعتماد کیا؟ حالانکہ وائس چیئرمین تو گدی نشین پیر بھی ہیں۔ خواتین کا ان پر اندھا اعتماد ہے، بال تک انہی کے ہاتھوں سنت کے طور پر ترشوالیتی ہیں۔ بھائی کی خالی کردہ نشست یا حلقے میں ان کا انتخاب موروثی سیاست کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں؟
پی ٹی آئی تو موروثی سیاست پر یقین ہی نہیں رکھتی مگر کیا کیا جائے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں شکست کی وجہ سے رشتہ داروں اور بھائیوں، بیٹوں کو ٹکٹ دینا ہی ٹھہرایا گیا تھا۔
پارٹی کے انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ فون کے ذریعہ ووٹ حاصل کیے گئے۔ ووٹ تو فون نمبر کے ذریعے آئے مگر الزام لگا کہ جیتنے والوں نے کرپشن تو نہیں کی لیکن پیسے دے کر ووٹ حاصل کیے ہیں۔
2013ء کے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی ناگواری کا اظہار ہوا اور کہا گیا کہ یہ جماعت ویسے تو صاف چلی، شفاف چلی ہوتی ہے بس کچھ ذمے داروں نے رقم لے کر پارٹی ٹکٹ تقسیم کیے تھے، مگر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ اگر ایسا ہی تو پھر عمران خان صاحب نے کیسے دستخط کردیے تھے۔
سینیٹ کے انتخاب میں بذریعہ ویڈیو معلوم ہوا کہ ارکانِ صوبائی اسمبلی نے رقوم لے کر اپنی ہی جماعت کے خلاف ووٹ ڈال دیے پھر جو کچھ سینیٹ میں ہوا اس کے بارے میں ذکر کرنا ہی بے کار ہے کیونکہ جو توقیر پارلیمنٹ کو پی ٹی آئی نے دی تھی اس کی مثال جمہوری اور پارلیمانی تاریخ میں سنہری حروف کے ساتھ لکھی جاچکی ہے۔
یہ عزت اور توقیر کی بات بھی کیا خوب ہے کہ جن افراد کے ساتھ اختلاف کی بنا پر خوبصورت لفظ ادا کیے جاتے ہیں ان کی بنا پر عزت افزائی پانے والے راستہ بدل لیتے ہیں۔ چونکہ مطلب تو ریاستِ مدینہ ہے اور کم نصیب ہے جو ریاستِ مدینہ میں رہنا نہ چاہتا ہو وہاں تو اونچی آواز میں کسی کو پکارا بھی نہیں جاتا چہ جائیکہ ہزاروں افراد کی موجودگی میں لعن طعن کی جائے، آوازہ کسا جائے، نام بگاڑا جائے، الزام تراشی کی جائے، دشنام طرازی بھی ہوسکے تو کوئی حرج نہیں۔ قاضی، جج، مجسٹریٹ سب کے بارے میں اس قدر تعریفی کلمات ادا کیے جائیں کہ دنیا جھوم اٹھے۔ مگر کیا شک ہے کہ 23 لاکھ افراد نے صرف 8 حلقوں میں ہی مسترد کیا ہو، قیادت ہو تو ایسی ہو، جشن فتح بھی منایا جائے، رقص بھی کرلیا جائے، ڈھول کی تھاپ بھی ذرا زور دار ہو تو کیا مضائقہ۔
پھر آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ دوہری نشست نہیں رکھی جاسکتی۔ پی ٹی آئی جشن تو مناسکتی ہے مگر تقدیر کے لکھے پر بھی تو نظر ڈالے۔ سمجھا جارہا ہے کہ یہ بڑی کامیابی ہے اور اب حکومت حاصل کرنے کے تمام راستے کھل جا سم سم کی آواز پر کھل جائیں گے۔ مگر کون ہے جو یہ بات سمجھائے کہ 6 نشستیں مزید خالی ہوں گی، ایک آدھ اور بھی ایسی ہی ہے۔ 2، 3 اور بھی ایسی ہونے والی ہیں اور کئی ارکان عدالت جاکر کہہ چکے ہیں کہ ہم نے تو روایتی طور پر پارٹی کو استعفیٰ دیا تھا اور ہم اب بھی رکن ہیں۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو شاہراہِ دستور کے ساتھ اپنے روابط رکھے ہوئے ہیں اور خود کوخود فریبی میں مبتلا رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں مگر فیصلہ تو حتمی و آخری وہ ہوگا جو کسی منصب پر بیٹھ کر فیصلہ صادر کرے گا۔
دوسری طرف اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ پاکستان کے عوام حکومت کی کارکردگی سے بہت ناخوش ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، افراطِ زر، تیل، بجلی کی قیمت، انڈسٹریز کا بند ہونا، زراعت میں کمی، درآمدات کا آئندہ چند ماہ میں بڑھنا، روپے کی قدر میں کمی اور نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کا صرف ویڈیو گیم کھیلنا اور بے روزگار رہنا، گویا اس حکومت کی حالت ویسی ہی ہے جیسی فروری، مارچ میں تحریک انصاف کی حکومت کی تھی۔
پی ڈی ایم یا اتحادی حکومت کا فیصلہ تھا کہ جس امیدوار یا پارٹی نے ان 9 حلقوں میں 2018ء میں انتخاب میں حصہ لیا تھا اس کی حمایت کی جائے مگر کوئی بتائے کہ اگر کوئی نوجوان کسی مذہبی و سیاسی شخصیت کے بارے میں غیر مناسب زبان استعمال کرے تو کیا اس قدآور مذہبی سیاسی شخصیت کی جماعت چارسدہ جاکر محنت کرے گی؟
بلور خاندان قابلِ عزت ہے مگر انتخاب لڑنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے انسان تھک بھی جاتا ہے۔ پی ٹی آئی مولانا قاسم کے بارے میں ایک بھی نازیبا الفاظ نہیں کہہ سکی مگر کون ہیں جو ان کو ووٹ ڈالنا نہیں چاہتے تھے؟ ایم کیو ایم میں مزید بٹوارا ہو نہیں سکتا۔
اسی طرح 4 سال ملک سے باہر رہ کر فیصل آباد سے انتخاب لڑنا اور وہ بھی بغیر منصوبہ بندی کے، یہی حال ننکانہ صاحب کا ہے کہ ایک نوجوان باہمت خاتون کو جس قسم کی حمایت چاہیے تھی وہ موجود نہیں تھی اور پھر پنجاب کی موجودہ صورتحال اور ان کا جوڑ توڑ کا تجربہ۔ تمام اہم شخصیات ان 8 حلقوں میں جاکر خطاب بھی نہ کرسکتی تھیں جس کی ضرورت تھی اور جو یہ کام آسانی کے ساتھ کرسکتی تھی وہ والد سے ملاقات کو لندن جاچکی ہے۔
اب اسے حکومت کی خوش قسمتی کہا جائے یا کچھ اور، معلوم نہیں، لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ ان انتخابات میں شکست کے باوجود حکومت کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوگی تاہم ایک بات واضح ہے کہ عمران خان نے ان حلقوں میں الیکشن لڑکر اپنی جماعت کو تقسیم ہونے سے سردست بچا لیا ہے اور اگر کسی صورت ان کو پارلیمنٹ میں جانا پڑا تو ان نشستوں پر انتخاب دوبارہ ہوگا اور تحریک انصاف کی اندرونی لڑائی اور کشمکش نظر بھی آئے گی اور رنگ بھی دکھائے گی۔
یہاں یہ بات بھی کہہ دینے میں حرج نہیں کہ یہ جیت بھی عمران خان کو دھرنا دینے کے قابل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اور اربوں روپے ضائع ہونے کے ذمہ دار صرف عمران خان ہی ہوں گے، تاہم ایک بات قابلِ تعریف ہے کہ ان کا اپنے کارکنوں کے ساتھ ڈیجیٹل رابطہ بہت مضبوط ہے اور حکومت ایسا کرتی نظر نہیں آرہی۔
تبصرے (1) بند ہیں