• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

اسلام آباد پولیس پر دوران حراست تشدد واقعے کی رپورٹ چھپانے کا الزام

شائع October 15, 2022
زینب مزاری حاضری نے اسلام آباد پولیس پر سخت تنقید بھی کی ہے —فوٹو: زینب مزاری حاضری ٹوئٹر
زینب مزاری حاضری نے اسلام آباد پولیس پر سخت تنقید بھی کی ہے —فوٹو: زینب مزاری حاضری ٹوئٹر

سماجی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری نےکہا ہے کہ اسلام آباد پولیس پر ایک ہفتہ قبل اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی طرف سے ایک شہری کو حراست میں تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے کی رپورٹ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وکیل زینب مزاری نے کہا کہ 7 اکتوبر کو اسلام آباد کے علاقے کراچی کمپنی کے ایس ایچ او ارشاد نے 16 سالہ وجاہت سیف اور 17 سالہ فہد آفتاب کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور وجاہت سیف کے والد چوہدری سیف کو ان کی ویڈیو دکھائی تھی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: پولیس حراست میں تشدد کے الزام پر ایس ایچ او معطل، انکوائری شروع

انہوں نے کہا کہ انکوائری رپورٹ میں ایس ایچ او کو مجرم پایا گیا ہے مگر پولیس وہ رپورٹ جاری نہیں کر رہی اور ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل ظفر نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں انکوائری رپورٹ دینے کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انکوائری رپورٹ چھپانے کی بڑی کوشش کی جا رہی ہے مگر آئی جی اسلام آباد نیند میں ہیں اور پولیس کے اعلیٰ ترین افسران کی طرف سے یہ گھناؤنا طرز عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ لڑکوں کو نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ایک پرانی ایف آئی آر میں ملوث کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پنجاب: شہریوں پر تشدد کے الزامات، 2 ایس ایچ اوز سمیت 10 پولیس اہلکار معطل

وجاہت سیف کے والد نے کہا کہ بچے جی-9 کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا اور اسی دوران سادہ کپڑوں میں ملبوث پولیس افسران آئے اور ان کو تھانے لے گئے جہاں ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے دو سے تین دن تک پولیس سے درخواستیں کیں مگر پولیس نے ان کو رہا نہیں کیا جس کے بعد ہم نے ایک درخواست دائر کی جس پر ہمیں ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور آئی جی اسلام آباد سے گزارش کی کہ ’ناانصافی بند کریں‘ ۔

وکیل زینب مزاری ٹوئٹر پر اپنے بیان میں پولیس پر ایف آئی آر درج نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھا کہ وفاقی علاقہ اسلام آباد کی پولیس کی جانب سے حراست کے دوران تشدد کو چھپانے کی کوشش نے میرا خون کھول دیا ہے۔

آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کو مخاطب کرکے ایمان زینب مزاری نے کہا کہ ’آپ کی پولیس فورس کنٹرول سے باہر ہے اور آپ یا تو بے خبر ہیں یا اس کو چھپانے میں شریک ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ غریب لوگ ہیں جن کے پاس وسائل نہیں ہیں لہٰذا آپ کو لگتا ہے کہ آپ ان کے خلاف ناانصافی کر سکتے ہیں اور کوئی ان کی مدد بھی نہیں کرے گا، اس طرح کا سلوک ظالمانہ اور غیر قانونی ہے۔

مزید پڑھیں: اڈیالہ جیل حراستی مرکز قرار، قیدیوں سے بدترین سلوک کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل

اس کیس کی پیروی کرنے والے ان کے ساتھی وکیل ایڈووکیٹ اسامہ خاور نے کہا کہ قانون واضح ہے اور اگر کسی نے پولیس کو قابلِ شناخت جرم کی اطلاع دی تو ایک ایس ایچ او ایف آئی آر درج کرنے کا پابند ہے۔

انہوں نے کہا کہ بغیر کسی بہانے کے ایف آئی آر درج کرنا پولیس کا قانونی فرض ہے اور مقدمہ درج نہ کرنا ایک جرم ہے جو تادیبی کارروائی کی بنیاد بن سکتا ہے، کیا اسلام آباد پولیس پر قانون لاگو نہیں ہوتا؟۔

ایس ایچ او کی طرف سے تشدد کا معاملہ

واضح رہے کہ 9 اکتوبر کو اسلام آباد پولیس نے وکیل ایمان زینب مزاری کی جانب سے ایک شہری کو حراست میں تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کرنے پر جی-9 کے علاقے کراچی کمپنی کے ایس ایچ او ارشاد کو معطل کرکے انکوائری شروع کردی تھی۔

اسلام آباد پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی ہدایت پر تھانہ کراچی کمپنی میں شہری پر تشدد کے واقعے کی منصفانہ انکوائری کے لیے، ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘قصور وار ثابت ہونے پر سخت کارروائی کی جائے گی، کسی بھی غیر قانونی کارروائی میں قانون نافذ کرنے والا اہلکار ملوث پایا گیا تو اس سے برداشت نہیں کیا جائے گا’۔

مزید پڑھیں: فوجی قیادت کےخلاف ہرزہ سرائی: ایمان مزاری کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر پولیس، مدعی کو نوٹس

اس سے قبل انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے واقعے کا نوٹس لے کر صدر پولیس کے سپرنٹنڈنٹ کو سینئرسپرنٹنڈٹ آف پولیس آپریشنز کے ماتحت شفاف انکوائری اور رپورٹ پیس کرنے کا حکم دیا تھا۔

آئی جی نے کہا تھا کہ ‘پولیس کی حراست میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے’۔

ایس ایچ او ارشاد پر حراست کے دوران شہری پر تشدد کا الزام اس وقت سامنے آیا تھا جب معروف وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا تھا کہ وہ ایک معاملے پر جی9 پولیس اسٹیشن میں موجود تھیں جہاں انہیں ‘ایس ایچ او کے کمرے کے اندر ایک چھوٹے سے کمرے سے کسی کے رونے کی آواز سنائی دی’۔

تاہم ایس ایچ او ارشاد کو معطل کردیا گیا تھا۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں ایمان زینب مزاری نے لکھا تھا کہ ‘میں اندر گئی تو دیکھا کہ ایس ایچ او ارشاد حراست میں موجود ایک شہری کو مار رہے تھے، شہری فرش پر لیٹا ہوا تھا اور ایس ایچ او اس کے منہ پر ٹھڈے مار رہا تھا’۔

انہوں نے ایس ایچ او کے ساتھ جملوں کے تبادلے کی اپنی ویڈیو بھی جاری کی تھی، جس میں انہیں پولیس افسر سے ان کا بیج نمبر پوچھتے ہوئے سنا جاسکتا ہے جبکہ وہ جواب دینے سے منع کر رہا ہے۔

انہوں نے اسلام آباد پولیس سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا کہ ‘خدا کا شکر ہے وہاں میرے علاوہ کئی اور گواہ بھی موجود تھے، جنہوں نے چلانے کی آواز سنی’۔

یہ بھی پڑھیں: سینئر فوجی قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی کیس میں ایمان مزاری کی عبوری ضمانت منظور

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایس ایچ او ارشاد کی پولیس فورس میں کوئی جگہ نہیں بنتی، اسلام آباد پولیس کو ایکشن لینا چاہیے’۔

بعد ازاں انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا کہ مذکورہ ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے شکایت جمع کرادی ہے اور اپنے وکیل کے ذریعے اس کی پیروی کروں گی۔

ٹوئٹر پر جاری اپنی شکایت میں انہوں نے کہا ہے کہ مبینہ واقعہ جمعے کو 11 بجے پیش آیا اور الزام عائد کیا کہ ایس ایچ او نے سادہ لباس شہری سے رشوت بھی لی جو حراست میں تشدد کا نشانہ بننے والے کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024