پشاور ہائیکورٹ: ٹرانس جینڈر خاتون مرحوم والد کی پینشن کی حقدار قرار
پشاور ہائی کورٹ نے ٹرانس جینڈر خاتون کو اپنے مرحوم والد کی پینشن حاصل کرنے کا حقدار قرار دیتے ہوئے صوبائی حکومت کو اسے پیشن جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایبٹ آباد سرکٹ بینچ کے جسٹس وقار احمد اور جسٹس فضل سبحان نے رخسار نامی ٹرانس جینڈر خاتون کی جانب سے دائر درخواست کو منظور کیا جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ حکومت کو ان کے مرحوم والد کی پینشن اور دیگر متعلقہ مراعات جاری کرنے کی ہدایت دی جائے جو ایک سرکاری ملازم تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 'ٹرانس جینڈر ایکٹ پر اعتراض کرنے والے خود اس قانون کو پڑھیں'
کیس کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے کے بعد بینچ نے فیصلہ دیا کہ ان کا پختہ خیال ہے کہ درخواست گزار (ٹرانس جینڈر) خاتون ہیں اور مرحوم گوہر رحمٰن کی بیٹی ہیں۔
بینچ نے فیصلہ دیا کہ درخواست گزار غیر شادی شدہ ہیں اور قانون کے مطابق وہ زندگی بھر اپنے والد کی فیملی پینشن کی حقدار ہیں لیکن یہ ان کے صنفی اظہار میں کسی قسم کی تبدیلی سے مشروط ہوگا، لہٰذا حکومت سمیت جواب دہندگان کو فوری طور پر ہدایت کی گئی کہ درخواست گزار کو پینشن اور دیگر مراعات جاری کی جائیں۔
گوہر رحمٰن محکمہ صحت میں خدمات انجام دے رہے تھے اور یکم جنوری 1989 کو سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد 21 جولائی 2020 کو اپنی وفات تک پنشن وصول کرتے رہے، متوفی کی اہلیہ پہلے ہی وفات پا چکی ہیں جبکہ درخواست گزار کی دیگر بہنیں شادی شدہ ہیں۔
درخواست گزار کی جانب سے نازش پرویز، سحرش پرویز اور فرح پرویز پر مشتمل وکلا کا پینل عدالت میں پیش ہوا اور کہا کہ ان کے مؤکل کے والد کی وفات کے بعد پیدائشی طور پر ٹرانس جینڈر اور اپنے والدین کی غیر شادی شدہ بیٹی کی حیثیت سے درخواست گزار نے اپنے مرحوم والد کی پینشن کے لیے درخواست دی لیکن صوبائی حکومت سمیت جواب دہندگان نے نے رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔
مزید پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ آخر ہے کیا؟
ان کا مؤقف تھا کہ متعلقہ قانون کے تحت درخواست گزار خاتون ٹرانس جینڈر ہونے کے ناطے اپنے مرحوم والد کی پینشن کی حقدار ہے۔
ان کا مؤقف تھا کہ صوبائی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے خیبرپختونخوا سول سرونٹ پنشن رولز 2021 نافذ کیا ہے جس کے تحت غیر شادی شدہ بیٹی تاحیات یا شادی تک اپنے مرحوم والد کی پینشن کی حقدار سمجھی جائے گی۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ مقننہ نے ٹرانس جینڈر افراد کو ان کے صنفی اظہار اور شناخت کے سلسلے میں درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے حقوق اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ 2018 نافذ کیا ہے۔
جسٹس فضل سبحان کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں بینچ نے مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 4 کا حوالہ دیا جس میں ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف پابندی پر زور دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرانس جینڈر ایکٹ پر شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا، وفاقی وزیرقانون
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار نے اپنا سی این آئی سی فائل میں رکھا تھا جس میں اس کی جنس بطور خاتون (ٹرانس جینڈر) ظاہر کی گئی ہے اور مرحوم گوہر رحمٰن کی غیر شادی شدہ بیٹی ہونے کی بنیاد پر اس نے پینشن کا مطالبہ کیا۔
بینچ نے فیصلہ دیا کہ اگرچہ درخواست گزار کی جنس کا طبی طور پر تعین نہیں کیا گیا ہے تاہم متعلقہ حکام نے مناسب کارروائی کے بعد درخواست گزار کو شناختی کارڈ جاری کیا تھا جس نے درخواست گزار کے عورت (ٹرانس جینڈر) ہونے کے دعوے کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔