• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

ایف آئی اے کو سابق وزیر عمر ایوب خان کے خلاف کارروائی سے روک دیاگیا

شائع October 12, 2022
عمر ایوب  نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایف آئی اے سیاسی بنیاد پر بنائے گئے کیس میں گھسیٹ سکتی ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
عمر ایوب نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایف آئی اے سیاسی بنیاد پر بنائے گئے کیس میں گھسیٹ سکتی ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

ایف آئی اے کو سابق وفاقی وزیر عمر ایوب خان کے خلاف کارروائی سے روک دیاگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کو پاکستان تحریک انصاف کے خلاف الزامات کی انکوائری جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے درخواست گزار پی ٹی آئی کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری عمر ایوب خان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے روک دیا جب کہ انہوں نے مذکورہ تحقیقات میں نشانہ بنائے جانے کے خدشات کا اظہار کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ سے متعلق لاہور میں درج ایف آئی آر کے خلاف عمر ایوب خان کی درخواست پر ایف آئی اے سے رپورٹ طلب کی جب کہ وہ ایف آئی آر میں نامزد نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ درج

پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر نے خدشے کا اظہار کیا کہ ایف آئی اے انہیں سیاسی بنیاد پر بنائے گئے کیس میں ہراساں کرنے، بدنام کرنے اور ان کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے مقدمے میں گھسیٹ سکتی ہے۔

عدالت عالیہ نے ایف آئی اے کو ایک ہفتے میں جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو بھی 19 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اس مذکورہ ایف آئی آر کے تحت درخواست گزار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، اگر پابندی کے اس حکم میں آئندہ سماعت میں توسیع نہیں کی گئی تو یہ خوبخود کالعدم ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایف آئی اے کارپوریٹ بینکنگ سرکل اسلام آباد میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سمیت 11 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت، الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنادیا

ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں عمران خان، سردار اظہر طارق، سیف اللہ نیازی، سید یونس، عامر کیانی، طارق رحیم شیخ، طارق شفیع، فیصل مقبول شیخ، حامد زمان اور منظور احمد چوہدری کو نامزد کیا گیا۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری

واضح رہے کہ ایف آئی اے نے 7 اکتوبر کو پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللہ نیازی کو اسلام آباد اور لاہور سے حامد زمان کو ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے حوالے سے حراست میں لیا تھا۔

ایف آئی اے لاہور نے بیان میں کہا تھا کہ فارن فنڈنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں مقدمہ درج کرکے پی ٹی آئی رہنما حامد زمان کو گرفتار کرلیا تھا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے لاہور کی جانب سے ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ درج کرکے، انصاف ٹرسٹ کے ٹرسٹی حامد زمان کو وارث روڈ سے گرفتار کرلیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 8 سال بعد پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ

10 اکتوبر کو لاہور کی مقامی عدالت نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے لیے پی ٹی آئی کے رہنما حامد زمان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی ایف آئی اے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جیل بھیج دیا تھا۔

یاد رہے کہ 8 اکتوبر کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں سینیٹر سیف اللہ نیازی اور حامد زمان کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 2 اگست کو ای سی پی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف 2014 سے زیر التوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے فریقین کے دلائل سننے کے بعد رواں سال 20 جون کو محفوظ کیا گیا تھا، فیصلہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں نثار احمد اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔


فیصلے کے اہم نکات یہ تھے

  • یہ ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ ​​ملی۔
  • پارٹی نے عارف نقوی اور 34 غیر ملکی شہریوں سے فنڈز لیے۔
  • پی ٹی آئی نے 8 اکاؤنٹس کی ملکیت ظاہر کی اور 13 اکاؤنٹس کو پوشیدہ رکھا۔
  • عمران خان نے الیکشن کمیشن کے سامنے غلط بیانی کی۔
  • پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ پارٹی کو ملنے والے فنڈز کیوں نہ ضبط کیے جائیں۔

تین رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے میں چیف الیکشن کمشنر کی جانب سےکہا گیا تھا کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس: عدالت نے پی ٹی آئی رہنما حامد زمان کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا

فیصلے میں پی ٹی آئی کو امریکا، کینیڈا اور ووٹن کرکٹ سے ملنے والی فنڈنگ ممنوعہ قرار دی گئی تھی، اس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے دانستہ طور پر ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے عارف نقوی سمیت 34 غیر ملکیوں سے فنڈز لیے، ابراج گروپ، آئی پی آئی اور یوایس آئی سے بھی فنڈنگ حاصل کی، یو ایس اے ایل ایل سی سے حاصل کردہ فنڈنگ بھی ممنوعہ ثابت ہوگئی۔

فیصلے میں رومیتا سیٹھی سمیت دیگر غیر ملکی شہریوں اور غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو ملنے والی فنڈنگ بھی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے 8 اکاؤنٹس ظاہر کیے جبکہ 13 اکاؤنٹس پوشیدہ رکھے، یہ 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں جن کا تحریک انصاف ریکارڈ نہ دے سکی، پی ٹی آئی نے جن اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی وہ اس کی سینئر قیادت نے کھلوائے تھے۔

فیصلے میں الیکشن کمیشن نے مزید کہا تھا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس سال 2008 سے 2013 تک غلط ڈیکلریشن جمع کروائے، چیئرمین پی ٹی آئی کے فنڈنگ درست ہونے کے سرٹیفکیٹ درست نہیں تھے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اکاؤنٹس چھپائے، بینک اکاؤنٹس چھپانا آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ یہ بتایا جائے کہ پارٹی کو ملنے والے فنڈز الیکشن کمیشن کی جانب سے کیوں نہ ضبط کیے جائیں۔

مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی رہنما حامد زمان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

فیصلے میں پی ٹی آئی کو ملنے والی ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا، فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوانے کی ہدایت کردی گئی۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس

ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ ایسے وقت میں سنایا گیا تھا جب الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم میں تیزی آگئی تھی اور برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح برطانیہ میں ایک چیریٹی کرکٹ میچ کے ذریعے جمع ہونے والے 20 لاکھ ڈالر پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں آئے اور اس عمل میں بزنس ٹائیکون عارف نقوی کا کیا کردار رہا۔

پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے دائر کیا گیا یہ کیس 14 نومبر 2014 سے زیر التوا تھا، اکبر ایس بابر نے پاکستان اور بیرون ملک سے پارٹی کی فنڈنگ میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا، تاہم عمران خان اور پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اس حوالے سے کسی بھی غیر قانونی کام کی تردید کی جاتی رہی جن کا یہ مؤقف تھا کہ مذکورہ فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے نہیں ہوئی۔

مارچ 2018 میں ایک ماہ کے اندر پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے بالآخر 4 سال بعد 4 جنوری کو اپنی رپورٹ جمع کروائی، اس مدت کے دوران اس حوالے سے تقریباً 95 سماعتیں ہوئیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے طلب کیے گئے ریکارڈ کی 8 جلدوں پر مبنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ پی ٹی آئی قیادت نے بھارتی شہریوں اور بیرون ملکی کمپنیوں سمیت دیگر غیر ملکیوں سے ذرائع آمدن اور دیگر تفصیلات کے بغیر لاکھوں ڈالرز اور اربوں روپے جمع کرکے فنڈنگ قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر داخلہ کی سینیٹر سیف اللہ نیازی کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق

رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ حاصل کی اور فنڈز کے اصل حجم اور درجنوں بینک اکاؤنٹس کو چھپایا۔

رپورٹ میں پارٹی کی جانب سے بڑی ٹرانزیکشنز کی تفصیلات بتانے سے انکار اور پی ٹی آئی کے غیر ملکی اکاؤنٹس اور بیرون ملک جمع کیے گئے فنڈز کی تفصیلات کے حصول میں پینل کی ناکامی کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوالیہ نشان لگایا جو پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ جمع کروایا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے سال 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان 4 سال کی مدت میں اکٹھے کیے گئے فنڈز کے اصل حجم سے 31 کروڑ 20 لاکھ روپےکم رقم ظاہر کی، سالانہ تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کی رقم ظاہر نہیں کی گئی۔

رپورٹ میں پی ٹی آئی کے 4 ملازمین کو ذاتی اکاؤنٹس میں چندہ وصول کرنے کی اجازت دیے جانے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنا کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر ہے۔

تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے تمام جماعتوں کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمات کو اکٹھا کرنے اور ایک ساتھ اس کا فیصلہ سنائے جانے پر اصرار کیا جاتا رہا، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے زیر قیادت حکمراں اتحاد فیصلہ جلد سنانے کا مطالبہ کر رہا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024