مسئلہ کشمیر پر مغرب کا مؤقف بھارت کیلئے باعثِ تشویش
جرمن وزیر خارجہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی غیر معمولی حمایت نے بھارت کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کئی حلقوں نے اس پیش رفت کو ایک طرح کی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا ہے لیکن یہ ضرروی ہے کہ اس دورے اور اس بیان کا سیاق و سباق نظر انداز نہ کیا جائے۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے گزشتہ جمعہ کو اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے جرمنی کو اپنے کردار اور ذمہ داری کا احساس ہے، لہٰذا ہم خطے میں پُر امن حل تلاش کرنے کے لیے اس معاملے میں اقوام متحدہ کی مشغولیت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے پاکستان اور بھارت کو خطے میں سیاسی اور عملی تعاون کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی کے مسئلہ کشمیر تنازع کے حل کی حمایت، بھارت کے غیر ضروری تبصرے کو دفتر خارجہ نے مسترد کردیا
بھارت اور جرمنی میں بطور پاکستانی سفیر خدمات سرانجام دینے والے عبدالباسط نے کہا کہ ’جرمن وزیر خارجہ کا بیان مسئلہ کشمیر پر جرمنی کے مؤقف سے دستبرادری کا اشارہ نہیں لیکن اس بار ترکیب مختلف اور بھارت کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہے۔
یوکرین تنازع پر بھارت کے مؤقف کے حوالے سے مغربی ممالک کے اظہار برہمی اور مایوسی کے بعد جرمن وزیر خارجہ کا یہ بیان اور اس سے قبل امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا دورہ آزاد کشمیر بھارت کے لیے دھچکا ثابت ہوسکتا ہے جس نے اس بیان اور دورے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک کے ریمارکس پر اعتراض کرتے ہوئے ترجمان بھارتی وزارت خارجہ ارندم باگچی نے کہا کہ ’ عالمی برادری میں شامل تمام سنجیدہ ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی اور خاص طور پر سرحد پار دہشت گردی کی مذمت کریں‘۔
دریں اثنا زیادہ تر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ مغرب کی جانب سے یہ اقدامات حقیقت سے زیادہ محض بیان بازی پر مبنی ہیں۔
مزید پڑھیں: مسئلہ کشمیر کے پرامن تصفیے کیلئے اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کے حامی ہیں، جرمن وزیرخارجہ
امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ میں سابق مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی نظر میں جرمن وزیر خارجہ کا یہ بیان اور امریکی سفیر کا دورہ کشمیر کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا جرمنی اور دیگر مغربی ممالک نے کبھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر بات کی ہے؟
انہوں نے کہا کہ ’مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی پر ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا، کیا وہ اسے روکنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں گے؟‘۔
دورسی جانب سفیر عبدالباسط نے بھی پاکستانیوں کو تجویز دی ہے کہ وہ اسے محض بیان اور دورے سے زیادہ نہ سمجھیں۔