ایران: سرکاری ٹی وی کی نشریات ہیک، آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف پیغامات نشر
خواتین کی سربراہی میں جاری احتجاج کے حامی ہیکرز نے ایران کے سرکاری ٹی وی چینل کو دوران نشریات ہیک کرکے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف پیغامات کے ساتھ ان کی تصویر نشر کی جس کو نشانہ بناتے دکھایا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ہیکرز نے ایران کے سرکاری ٹی وی چینل کو براہ راست نشریات کے دوران ہیک کرلیا جہاں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصویر کو سرخ رنگ سے نشانہ بناتے اور ان کے گرد آگ کے شعلے دکھائی دے رہے ہیں۔
ہیکرز کی طرف سے جاری کردہ تصویر بڑے پیمانے پر آن لائن اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی ہے جبکہ حکومت مخالف دیگر مظاہرین نے تہران میں بل بورڈز پر سپریم لیڈر’ خامنہ ای مردہ باد‘ اور ’پولیس عوام کے قاتل ہیں‘ جیسے نعرے لکھ دیے ہیں۔
مزید پڑھیں:دشمن ایران کو کمزور کرنے کے لیے احتجاج کو استعمال کررہے ہیں، خامنہ ای
رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز ٹی وی کی لائیو ٹرانزمیشن کے دوران کچھ وقت کے لیے ہیکرز نے ٹی وی اسکرین پر لکھا کہ ’ہمارے نوجوانوں کا خون تمہارے ہاتھوں پر ہے‘ جہاں ہزاروں مظاہرین باالخصوص خواتین 22 سالہ مہسا امینی کی ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد مسلسل سڑکوں پر ہیں جس کی وجہ سے تہران سمیت کئی شہروں میں کشیدگی برقرار ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے رپورٹ کیا کہ کہ تہران کے مختلف علاقوں میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس فورس نے آنسو گیس کا استعمال کیا جہاں مشتعل مظاہرین نے نعرے لگاتے ہوئے پولیس دفتر سمیت دیگر سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا۔
واضح رہے کہ ایران میں مظاہروں میں اس وقت شدت آئی جب 16 ستمبر کو نوجوان خاتون مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے خواتین کے لیے مقرر ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا جو بعدازاں جاں بحق ہو گئیں۔
عدالتِ علی نامی گروپ نے ٹی وی ہیک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جہاں انہوں نے ایک اور جملہ نشر کیا کہ ’ہمارا ساتھ دیں، اٹھ کھڑے ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت کے بعد ایران میں کشیدگی کے پیچھے امریکا اور اسرائیل ہیں، سپریم لیڈر
ہیکرز نے مہسا امینی سمیت ان تین خواتین کی تصاویر بھی نشر کیں جو مظاہروں کے درمیان ہلاک ہوئیں جیسا کہ ناروے میں قائم ایران انسانی حقوق گروپ نے دعویٰ کیا کہ ان مظاہروں کے دوران 95 لوگ بھی ہلاک ہوئے۔
ایران کے انسانی حقوق گروپ نے برطانیہ میں مقیم بلوچ کارکنان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مزید 90 افراد ایران کے جنوب مشرق علاقے سستتان بلوچستان میں ہلاک ہوئے جب سستاب بلوچستان کے پولیس سربراہ پر بلوچ برادری سے تعلق رکھنے والی نوعمر بچی کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے پر علاقے میں صورتحال کشیدہ ہوگئی۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے کہا کہ ایران کا پاسدارانِ انقلاب کور کا ایک رکن گزشتہ روز صوبہ کردستان کے شہر سنندج میں ہلاک ہوگیا اور پاسداران کی بسیج پیرا ملٹری فورس کا ایک رکن تہران میں ہجوم کے مسلح حملے کے بعد شدید چوٹ لگنے سے ہلاک ہوا جس کے بعد سیکورٹی فورسز میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔
'ایران میں مظاہروں کی بڑھتی لہر'
ایران میں گزشتہ تین برس میں سماجی غیریقینی میں اضافہ ہوا ہے جہاں جامعات کے طلبہ، اسکولوں کی نوجوان طلبہ اور خواتین ’عورت، زندگی اور آزادی‘ جیسے نعرے لگاتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر ایران بھر میں پُرتشدد مظاہرے، 3 افراد ہلاک
امریکی مہم جو اور صحافی امید میمرین نے ٹوئٹر پر لکھا کہ تہران سے آنے والی ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہر ہے ہر گلی چوراہے کہیں زیادہ تو کہیں کم زیادہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔
مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز کردستان میں اسکول کی طالبات نے نعرے لگائے اور اپنے حجاب ہوا میں جھولتے ہوئے سڑک پر مارچ کیا جن ویڈیوز کے لیے رائٹس گروپ نے کہا کہ وہ ہفتہ کو ریکارڈ کی گئی تھی۔
ریاست کی طرف سے خونی ردعمل کے خوفناک فوٹیج بھی سامنے آئے ہیں جو انٹرنیٹ کی بندش اور تمام بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بلاک ہونے کے باوجود آن لائن پھیل چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کردہ ایک ویڈیو میں کردستان کے دارالحکومت سنندج میں ایک شخص کی گاڑی کے پہیے پر گولی مار کر ہلاک کیا گیا جہاں صوبے کے پولیس سربراہ علی آزادی نے الزام لگایا کہ اس شخص کو پاسدارانِ انقلاب کے مخالفین نے ہلاک کیا ہے۔
اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو گردش کرنے لگی جس میں مشتعل افراد کو خوف کی علامت مسلح گروپ بسیج کے ایک رکن سے بدلہ لیتے ہوئے دیکھا گیا کہ کس طرح اس ہجوم حملہ آور ہوتا ہے اس بری طرح سے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش، انٹرنیٹ سروس معطل
ایک اور ویڈیو میں مشہد کے علاقے میں ایک خاتون کو گولی مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر لوگوں نے کہا کہ یہ ایک نوجوان خاتون ندا آغا سلطان کی فوٹیج تھیں جو 2009 میں ہونے والے مظاہروں کے دوران گولی مار کر ہلاک ہونے کے بعد ایرانی اپوزیشن کی مستقل علامت بن گئی۔
'اب کوئی خوف نہیں ہے'
ملک میں جاری مظاہروں کی کشیدگی، ان پُر تشدد اور آن لائن مواد کی تشہیر پر پابندی کے بعد مظاہرین نے عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے دیگر حربے اختیار کرلیے ہیں۔
تہران کی مودارس ہائی وے کی ایک اوور پاس پر مظاہرین نے بہت بڑا بینر آویزاں کردیا ہے جس پر لکھا ہے کہ ’ہم اب مزید خوف زدہ نہیں ہیں، ہم لڑیں گے۔‘
اسی مقام پر ایک اور شخص کو اسپرے کے ساتھ حکومت بل بورڈ پر ’پولیس عوام کی نوکر ہے، اور پولیس عوام کی قاتل ہے‘ جیسے نعرے اور جملے لکھتے ہوئے دیکھا گیا۔
ایرانی دارالحکومت تہران میں پانی کی کئی نہروں کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا رنگ خون نما سرخ ہوگیا ہے لیکن شہر کی میونسپلٹی پارکس تنظیم کے سربراہ علی محمد مختاری نے کہا کہ یہ اطلاع بالکل غلط ہے چشموں کے رنگوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے
دوسری جانب، ایران نے حالیہ کشیدگی اور مظاہروں میں شدت کے پیچھے بیرونی قوتوں کو قرار دیا ہے۔
ادھر یورپی یونین، امریکا اور دیگر حکومتوں نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کردی ہیں۔
مہسا امینی کی ہلاکت پر ایران نے جمعے (7 اکتوبر) کو کہا کہ فرانزک تحقیقات سے معلوم ہوا کہ خاتون کی ہلاکت سر پر چوٹ لگنے سے نہیں بلکہ طویل طبی حالت کے نتیجے میں ہوئی ہے۔
مقتولہ کے والد نے سرکاری رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے لندن کی ایک این جی او ایران انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میری بیٹی کے کانوں اور گردن کے پیچھے سے خون بہہ رہا تھا۔‘