مجھے سزا سنانے کا مقصد تھا ڈر کر یہیں رہ جاؤں، پاکستان واپس نہ جاؤں، نواز شریف
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ مجھے سزا سنانے کا مقصد یہی تھا کہ انتخابات سے پہلے نواز شریف کا فیصلہ سنایا جائے، اور نواز شریف فیصلہ سن کر ڈر کر پھر یہیں رہ جائے، اور وہ پاکستان نہ آئے، جہاں تک میں سمجھا ہوں، غالبا یہی بات تھی۔
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ نیب کے جج صاحب 6 تاریخ کو فیصلہ نہ سنائیں، میں پاکستان چلا جاؤں گا تو ایک ہفتے بعد میری موجودگی میں سنائیں، نہ جانے اس میں ان کو اس میں کتنا بڑا مسئلہ تھا کہ انہوں نے میری یہ درخواست بھی نہیں مانی۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنے عرصے کے بعد مریم نواز میرے ساتھ بیٹھی ہیں، یہ یہاں آکر اپنے بھائیوں سے بھی ملی ہیں، اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ملی ہیں، اس وقت سے ان کی ملاقات بھائیوں سے نہیں ہوئی، مجھ سے بھی آج تین سال کے بعد ملاقات ہوئی ہے۔
'پوچھنا چاہتا ہوں، ان کے سینے میں دل نہیں ہے'
ان کا کہنا تھا کہ مجھے یاد آرہا ہے کہ کس طرح ان کی والدہ بستر مرگ پر تھیں، اور کس طرح سے ہمیں ظلم کا نشانہ بھی بنایا گیا، میڈیا کے لوگ بھی مذاق اڑا رہے تھے کہ ان کی والدہ بیمار ہیں یا نہیں ہیں، ڈرامہ رچایا ہوا ہے، وہ ٹھیک ٹھاک ہیں، انہوں نے صرف ایک ڈھونگ رچایا تھا، میں نے پاکستان میں ایک جملہ کہا تھا کہ مرنا بھی پڑتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئیں، وہ قوم کو جواب تو دیں جنہوں نے جملے کسے تھے، ان کے سینے میں دل نہیں ہے، میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی نواز شریف سے ملاقات، پنجاب حکومت کی تبدیلی، اہم تعیناتیوں پر تبادلہ خیال
نواز شریف کا کہنا تھا کہ اور پھر جس طرح پوری فیملی کو جس کرب میں مبتلا کیا، مجھے یہ بھی یاد آرہا ہے کہ مجھے پتا لگا کہ غالباً 6 جولائی کو مجھے سزا سنائی جارہی ہے، میں نے کہا تھا کہ میری اہلیہ بہت بیمار ہیں وہ کومے میں ہیں، جب سے میں آیا ہوں مجھ سے بات بھی نہیں ہوئی ہے، نیب کے جج صاحب 6 تاریخ کو فیصلہ نہ سنائیں، میں پاکستان چلا جاؤں گا تو ایک ہفتے بعد میری موجودگی میں سنائیں، نہ جانے اس میں ان کو اس میں کتنا بڑا مسئلہ تھا کہ انہوں نے میری یہ درخواست بھی نہیں مانی۔
خیال رہے کہ 6 جون 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ آگے انتخابات بھی آرہے تھے، تو مقصد یہی تھا کہ انتخابات سے پہلے نواز شریف کا فیصلہ سنایا جائے، اور نواز شریف فیصلہ سن کر ڈر کر پھر یہی رہ جائے، اور وہ پاکستان نہ آئے، جہاں تک میں سمجھا ہوں، غالبا یہی بات تھی، فیصلہ سن کر میں نے مریم نواز کو کہا تھا کہ مجھے 10 سال کی اور تمہیں 7 سال کی سزا سنا دی ہے، اب پاکستان چلیں گے۔
'مریم نواز پاکستان سے سرخرو ہو کر آئی ہے'
ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے کہا کہ والدہ بیمار ہیں، ہوش میں بھی نہیں آئیں، ڈاکٹرز بھی کہہ رہے ہیں کہ بہت تشویشناک حالت میں ہیں، اس پر میں نے کہا کہ کچھ قومی فرائض ہیں ان کی بجا آوری بھی بہت ضروری ہے، بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں تاریخ میں جن کا جواب نہیں دیا جاسکتا، تو چلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ان کی صحت کے لیے دعا کرتے ہیں، بہرحال پھر ہم پاکستان واپس چلے گئے، پاکستان میں ایئرپورٹ پر اترتے ہی انہوں نے جو حال کیا وہ آپ کے سامنے ہے، آج مریم نواز پاکستان سے سرخرو ہو کر آئی ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ مقدمہ جھوٹا تھا۔
'مقدمہ جھوٹا تھا، زندگی کے 5 سال ضائع کرنے پر کوئی تو حساب دے'
نواز شریف کا کہنا تھا کہ جب سزا جھوٹی تھی، مقدمہ جھوٹا تھا، تو پھر یہ دو، ڈھائی سو پیشیاں کیوں بھگتی گئیں، پھر جیلوں میں کیوں جانا پڑا، پھر زندگی کے قیمتی 5 سال کیوں ضائع کیے گئے، کوئی اس کا بھی تو حساب دے، کیا بطور پاکستانی میں یہ حق نہیں رکھتا کہ میں یہ سوال پوچھوں۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کا حکومت پر عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر زور
ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ سوال بھی نہ پوچھوں کہ مریم نواز کوٹ لکھپت جیل میں مجھ سے ملنے آئیں، تو جیل حکام نے اطلاع دی کہ نیب والے آرہے ہیں وہ مریم کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں، نیب والوں سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں گرفتار کرنا چاہتے ہیں، بتایا گیا کہ وہ جھوٹے کیسز لے آئے ہیں اور ساتھ میں گرفتاری کے وارنٹ بھی لے کر آئے ہیں، مریم نواز کی چھوٹی بیٹی یہ منظر دیکھ کر رونا شروع ہوگئی، میرا نہیں خیال کہ نیب والوں کے دل میں کوئی رحم آیا ہوگا۔
'مریم نواز کو مجھے اذیت پہنچانے کے لیے گرفتار کیا گیا'
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے مریم نواز کو کہا کہ اللہ مالک ہے، ہم حق پر ہیں تو ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، میری آنکھوں کے سامنے انہوں نے مریم کو گرفتار کیا، ان کی چھوٹی بیٹی روتی رہی، مجھے جیل کے سیل میں واپس لے کر چلے گئے، مریم نواز کی چھوٹی بیٹی کو روتے روتے اکیلے گھر واپس جانا پڑا، یہ گرفتاری مجھے اذیت پہنچانے کے لیے کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے بھی یہ پلان کیا ہوگا، انہوں نے کہا ہوگا کہ جب نواز شریف بیٹھا ہوگا اور مریم جب جیل میں ان سے ملنے گئی ہوگی، وہیں پر نواز شریف کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیٹی کو گرفتار کرنا ہے، میں نے پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کا عمل ہوتے نہیں دیکھا، مجھے کوئی بتائے کہ کیا یہ گرفتاری کسی اور وقت اور کسی اور جگہ پر نہیں ہوسکتی تھی، ہمیں اس کا بھی کوئی حساب دے گا یا نہیں دے گا۔
'عمران خان، تمہارے دور میں وہ کام ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا'
نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں عمران خان کو بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے دور میں یہ وہ کام ہوا ہے جو آج سے پہلے کبھی کسی دور میں نہیں ہوا، جب اس سے قبل مریم نواز میرے ساتھ اڈیالہ جیل میں تھیں، میں علیحدہ سیل میں بند تھا یہ علیحدہ سیل میں بند تھیں، اور یہ اسی کیسز میں بند تھیں جس کیس میں ابھی ان کی بریت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں ارشد ملک کی عدالت میں تھا، وہاں مجھے اطلاع ملی تھی کہ کلثوم نواز کی طبیعت پھر خراب ہوئی ہے اور وہ آئی سی یو میں ہیں اور بے ہوش ہیں، مجھے بڑی فکر ہوئی، کورٹ میں کوئی راستہ نہیں تھا کہ کسی سے کہتا کہ آپ میری بات کروائیں، مجھے واپس جیل لے گئے، جیل پہنچ کر میں گاڑی سے اتر کر سیدھا سپرنٹنڈٹ جیل کے کمرے میں گیا، اور ان سے کہا کہ میری بیوی کی طبیعت بہت خراب ہے، مجھے ابھی لندن سے پیغام آیا ہے، آپ میری بات کروا دیں، وہ میری شکل دیکھنا شروع ہوگئے اور کہا کہ میں تو آپ کی بات نہیں کروا سکتا۔
نواز شریف نے کہا کہ میں نے ان کو کہا کہ آپ کی ٹیبل پر دو موبائل فون اور تین لینڈ لائنز پڑی ہوئی ہیں تو آپ ایک سیکنڈ میں میری بات کروا سکتے ہیں، انہوں نے مجھے کہا کہ ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے، (ن) لیگ کے قائد نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو اس کی اجازت لینے کی ضرورت کیا ہے، یہ تو انسانیت کا معاملہ ہے، بعد میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایمرجنسی تھی اس لیے بات کروا دی، میں نے ان سے منتیں کیں لیکن انہوں نے بات نہیں کروائی، وہاں سے مجھے سیل میں لے گئے۔
'مجھے جیل میں خبر دی کہ آپ کی اہلیہ فوت ہوگئیں'
ان کا کہنا تھا کہ تین گھنٹے کے بعد میرے پاس آکر کہتے ہیں کہ ہمیں بڑا دکھ ہے کہ آپ کی اہلیہ فوت ہوگئیں، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ میرے اوپر کیا گزری ہوگی کہ میں جیل میں اپنی اہلیہ کی موت کی خبر سن رہا ہوں، اور وہی لوگ جنہوں نے میری بات نہیں کروائی، مجھے خبر دینے آگئے کہ آپ کی شریک حیات فوت ہوگئیں، اور مجھے کہنے لگے کہ ہم مریم کی طرف جارہے ہیں ان کو اطلاع کرنی ہے، میں نے انہیں کہا کہ ہرگز نہیں، میں خود جاکر مریم نواز کو اطلاع دوں، اس پر وہ مشکل سے مانے، ان کا سیل کچھ فاصلے پر تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مریم نواز کو کس طرح بتاؤں گا۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کن اشاروں کی بنیاد پر انتخابات کی تیاری کررہے ہیں؟
مسلم لیگ (ن) کے قائد نے مزید کہا کہ جب میں نے مریم نواز کو یہ بات بتائی تو وہ سکتے میں آگئیں، اور زاروقطار رونا شروع کردیا، میں نے بڑی مشکل سے مریم نواز کو سنبھالا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قید کی سزا سنانے کے بعد کہہ دیتے کہ آپ کی بیوی چونکہ بہت بیمار ہیں، آپ ان کی جاکر تیمارداری کریں، ان کے پاس وقت گزاریں، آپ آئیں گے اس کے بعد دوبارہ جیل میں آجائیں لیکن یہ وقت آپ کے جیل میں رہنے کا نہیں ہے، آپ جاکر ان کے پاس رہیں، یہ کہنے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی، وہ مر گئیں اور ہمیں جیل میں یہ خبریں پہنچ رہی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ واقعات ہیں جو زندگی میں کبھی بھولے نہیں جاتے۔
'سیاست اپنی جگہ لیکن اس طرح سے ظلم نہیں کرنا چاہیے'
انہوں نے کہا کہ جب سے یہ لندن آئی ہیں، مجھ سے اور اپنے بھائیوں سے اپنی والدہ کے بارے میں ہی باتیں کر رہی ہیں، سیاست اپنی جگہ لیکن بندے کو اس طرح سے ظلم نہیں کرنا چاہیے، آج وہ ظلم ایک ایک کرکے ظلم کرنے والوں کے سامنے آرہے ہیں، اور آئندہ بھی آئیں گے، ان کی حرکتیں قوم کے سامنے آرہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو شرمناک فعل کیے ہیں، اور جو شرمناک باتیں کی ہیں، جو مکرو فریب کیا ہے اور دھوکے بازی کی ہے، سب کچھ قوم کے سامنے آرہا ہے، ہر چیز پر یو ٹرن، سب قوم دیکھ رہی ہے، میں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، جانے سے پہلے خودکشی کر لوں گا، وہ خودکشی آج تک نہیں کی۔
صحافی نے ان سے سوال پوچھا کہ مریم نواز کی بریت کے بعد کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کی راہ ہمور ہوگئی ہے، آپ بتائیں کے آگے کیا ہونے جارہا ہے، اس پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ انسان چال چلتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار خود اپنی زبانی کہہ گئے ہیں، آڈیو لیک آئی ہے، اور وہ آڈیو کو جھٹلا نہیں سکتے، اس آڈیو کا فرانزک بھی ہوگیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ہم نے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا دینی ہے اور عمران خان کو لانا ہے، ایک شخص نے ان سے کہا کہ ان کی سزا بنتی نہیں ہے، تو سابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں، مگر اب ہمیں یہ کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے باوجود نواز شریف کا وطن واپسی کا کوئی ارادہ نہیں
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اب مجھے بتائیں کہ اس سے بڑا کوئی ثبوت چاہیے؟ اسی طرح جسٹس شوکت صدیقی نے جو باتیں کی ہیں، اس سے بڑا ثبوت اور کسی کا ہو سکتا ہے، جنہوں نے یہ کہا کہ آپ نے نواز شریف اور مریم نواز کو جیل سے باہر نہیں آنے دینا، انہوں نے کہا تھا کہ اپیل تو اس وقت آئے گی جب نیب کی عدالت کا فیصلہ آجائے، کہا کہ نہیں نہیں، فیصلہ تو ہو چکا ہے، اب صرف یہ طے ہونا ہے کہ کتنے سال سزا دینی ہے۔
'جج صاحب نے سزا دی نہیں ہے، سزا دلوائی گئی ہے'
ان کا کہنا تھا کہ جج صاحب نے سزا دی نہیں ہے، سزا دلوائی گئی ہے، اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے، پھر یہ بھی کہا گیا کہ آپ نے ایسا نہ کیا تو ہماری تو دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی، اس ملک میں اتنے از خود نوٹس لیے جاتے ہیں، اس کا بھی ازخود نوٹس لو، پانچ سال سے نہ انصافی ہو رہی ہے، ارشد ملک صاحب نے یہ کہا، اس پر سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہمارا سر شرم سے جھک جانا چاہیے جو ارشد ملک کہہ گئے ہیں، کون نہیں جانتا ہے کہ یہ سب جھوٹے مقدمات تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ میری تاحیات نااہلی بھی سپریم کورٹ سے ہوئی ہے، اور آج کہا جارہا ہے کہ یہ تو کالا فیصلہ اور ظلم ہے، تو پھر ازالہ ہونا چاہیے، یہ سب باتیں قوم تک پہنچنی چاہئیں، میں اپنا رونا تو عوام تک پہنچاتا بھی نہیں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ مسلسل پانچ سالوں سے یہ ظلم ہو رہا ہے۔
'ہم نے دہشت گردی کو ختم کیا تھا'
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن تھا، پاکستان ایک معاشی قوت بننے جارہا تھا، جب میں وزیر اعظم تھا تو ڈالر 100روپے کا تھا، سبزی، دال، گوشت اور روزمرہ استعمال کی چیزیں لوگوں کی پہنچ میں تھیں، ہم نے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیا، پاکستان میں خوشحالی آرہی تھی، لوگوں کو روزگار مل رہا تھا، ہم نے دہشت گردی کو ختم کیا تھا۔
نواز شریف نے کہا کہ میں تو یہ خواب دیکھ رہا تھا کہ پاکستان خطے اور دنیا میں بھی معاشی قوت بنے گا، ہماری خدمات ہر شعبے میں ہیں، ہم نے معاشی طور پر اور دفاعی طور پر بھی مضبوط کیا، پاکستان ایک ایسی ایٹمی طاقت بن گیا کہ جس پر کوئی دشمن حملہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
'ہم نے ایبسلوٹلی ناٹ کہا تھا'
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم نے دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، ہم کسی کے دباؤ میں نہیں آئے، یہ جو کہتے ہیں کہ ایبسلوٹلی ناٹ، تم نے کیا کیا ہے، ہم نے ایبسلوٹلی ناٹ کہا تھا، ہمیں طشتری میں رکھ کر 5 ارب ڈالر پیش کیے گئے، ہم نے اس پر بھی ایبسلوٹلی ناٹ کہا، ہمیں نہیں چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ پروگرام بھی ہم نے ختم کیا، اور انہیں کہا کہ آپ کا شکریہ ہم اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے ہیں، عمران خان نے ہمیں دوبارہ بیساکھیوں پر کھڑا کردیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ہمسایہ ممالک سمیت دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کردیے، ہم نے پاکستان کی وہ خدمات کی ہیں، جو کبھی کسی نے کی ہی نہیں، اور اس بندے نے آکر سب کچھ بگاڑ دیا۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف کے ساتھ بڑے ضروری امور پر بات ہوگی، نواز شریف
نواز شریف کا کہنا تھا کہ مجھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکال دیا، مجھے کوئی بتائے کہ وزیر اعظم کو نکالنے والی کوئی یہ وجہ ہے، اور ساری زندگی کے لیے نااہل، مجھے مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے ہٹا دیا، یہ انتقام ہے، یہ کوئی عدالتی فیصلہ نہیں ہے، مجھ سے تو انتقام لے لیتے لیکن پاکستان سے انتقام لینے کا آپ کو کس نے کہا۔
'مریم نواز نے بڑی بہادری کا ثبوت دیا ہے'
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے بڑی بہادری کا ثبوت دیا ہے، جیسا ایک بہادر بیٹی اپنے باپ کا ساتھ دیتی ہے، مجھے مریم نواز پر فخر ہے، جس طرح یہ ثابت قدم رہیں اور ظلم کا سامنا کیا، ان کا بہت عمدہ کردار رہا ہے، میرے بھائی شہباز شریف اور پارٹی بھی ان کی معترف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے، ظلم، جبر، زیادتی اور سخت ناانصافیاں ہوئے، اور جن ججز نے ناانصافیاں کی ہیں، آج وہ بھی اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھ رہے ہوں گے تو ان کو بھی سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں ملے گا، میرا خیال ہے کہ ان کو حساب دینا پڑے گا، اگر پاکستان کو آگے بڑھانا ہے تو ان لوگوں کو جواب دینا ہوگا۔
'میری والدہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں'
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میری والدہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، شہباز شریف کو ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ آپ سے امی زیادہ پیار کرتی ہیں کیونکہ آپ پہلوٹی کے ہیں، امی کے سامنے بھی یہ بات کرتے تھے تو وہ بھی ہنستی تھیں، وہ راولپنڈی اور کوٹ لکھپت جیل میں ہفتے میں ایک بار آکر مجھ سے ملتی تھیں، مجھے کہتی تھیں کہ مجھے اب تمہارے بغیر نہیں جانا، بعد ازاں وہ لندن میں مجھ سے ملنے آگئیں اور یہاں پر رہیں اس دوران کووڈ-19 آگیا، پھر وہ یہیں پر اللہ کو پیاری ہوگئیں، اس دوران مریم نواز پاکستان میں تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جدہ میں میرے والد صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ہم انہیں قبر میں اتارنے کے لیے پاکستان بھی نہ جاسکے، میری والدہ فوت ہوئیں تو میں ان کے ساتھ پاکستان نہیں جاسکا، میری بیگم فوت ہوئیں تو مجھے جیل میں خبر ملی، تین دنوں کے لیے ہم پے رول پر باہر آئے، ان کی وفات کے دو دن بعد پھر جیل واپس، کچھ حد ہوتی ہے، یہ بڑی دکھ والی بات ہے کہ ہمیں پتا بھی نہیں لگ رہا ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ اور پھر نیب کے جج بھی فیصلے میں لکھ کر گیا کہ کرپشن کا کوئی کیس نظر نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کی پنجاب سے نواز شریف کی رپورٹس کے جائزے کیلئے میڈیکل بورڈ کی درخواست
’سازش کہنے والا خود سب سے بڑا سازشی نکلا‘
آڈیو لیکس سے متعلق سوال کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ سازش کہنے والا سب سے بڑا سازشی خود نکلا ہے، ہر چیز عیاں ہو رہی ہے، ایک ایک کرتوت قوم کے سامنے آرہے ہیں، آئندہ پتا نہیں اور کیا کچھ آئے گا، ابھی جو آیا ہے پتا نہیں اس کا بھی کیا قوم کو جواب دے گا، آج قوم جاننا چاہتی ہے، اس معاملے پر مریم نواز بات کریں گی اور ہو سکا تو میں بھی بات کروں گا۔
ان سے پوچھا گیا کہ 2023 میں جب انتخابات ہوتے ہیں تو خود کو چوتھی بار مرتبہ وزیر اعظم پاکستان بنتے دیکھ رہے ہیں، جس پر مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا کہنا تھا کہ ان شا اللہ۔
تبصرے (1) بند ہیں