• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

گیس کے کم پریشر کا سامنا کرنے والے صارفین کو ایل پی جی سلینڈر فراہم کرنے کا منصوبہ

شائع October 8, 2022
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایس این جی پی ایل کے 70 لاکھ صارفین ہیں— فائل فوٹو : ڈان
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایس این جی پی ایل کے 70 لاکھ صارفین ہیں— فائل فوٹو : ڈان

سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) نے دور دراز علاقوں میں رہنے والے ایسے صارفین کو لیکوئیفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) سلینڈر فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جنہیں اکثر سردیوں کے دوران گیس کے انتہائی کم پریشر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایس این جی پی ایل نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہنے والے 10 لاکھ ایسے صارفین کی نشاندہی کی ہے جو ایل پی جی سلنڈر کی فراہمی کے اہل ہیں۔

پٹرولیم ڈویژن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایس این جی پی ایل کے ایک سینئر افسر کو ایل پی جی سپلائی آپریشن کو انجام دینے کا کام سونپا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’چونکہ یہ اقدام عوامی مفاد میں کیا جا رہا ہے اس لیے صارفین کو ایل پی جی ’نو پرافٹ نو لاس ماڈل‘ یعنی بغیر کسی منافع یا نقصان کے فراہم کی جائے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایس این جی پی ایل 7 سال سے نئے کنیکشنز کا سالانہ کوٹہ مکمل استعمال کرنے میں ناکام

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایس این جی پی ایل کے 70 لاکھ صارفین ہیں جن میں اکثریت گھریلو صارفین کی ہے، گیس کے مقامی ذخائر میں کمی اور بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے کمپنی کو کئی برسوں سے گیس کی قلت کا سامنا ہے۔

ایس این جی پی ایل نے صنعت، بجلی اور دیگر شعبوں کی طلب کو پورا کرنے کے لیے قطر سے ایل این جی کی درآمد بھی شروع کر دی ہے، بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے کُل ایل این جی سپلائی میں ایل این جی کا حصہ تقریباً 55 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ ایل پی جی سپلائی آپریشن شروع کرنے سے قبل ایس این جی پی ایل پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر عوام کے لیے آگاہی مہم چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سخت سردیوں میں گیس کی قلت بڑھنے کی صورت میں صارفین کو صرف کھانا پکانے کے اوقات میں گیس فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سرکاری اداروں کو نیا ایل این جی ٹرمینل بنانے کی ہدایت

انہوں نے بتایا کہ کمپنی سے کہا گیا ہے کہ وہ صنعت خصوصاً برآمدات اور بجلی کے شعبوں کو گیس کی فراہمی یقینی بنائے، سی این جی سیکٹر کو گیس کی سپلائی پہلے ہی بند ہے اور آنے والے دنوں میں بھی یہ بندش برقرار رہنے کا امکان ہے۔

عہدیدار نے بتایا کیا کہ ایل پی جی کی فراہمی کا منصوبہ فی الحال صرف پنجاب تک محدود ہے کیونکہ خیبرپختونخوا میں گیس کی کوئی کمی نہیں ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’آئین کے تحت ایس این جی پی ایل خیبرپختونخوا کی ضرورت کے مطابق مکمل سپلائی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے جو کہ گیس پیدا کرنے والا بڑا صوبہ ہے‘۔

ایس این جی پی ایل نے گزشتہ سال نئے گیس کنکشن کی فراہمی پر پابندی عائد کی تھی جس سے نہ صرف صارفین پریشان ہوئے بلکہ اس کا بیک لاگ بھی بڑھ کر 28 لاکھ تک پہنچ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ایل این جی پالیسی میں تبدیلیوں کی منظوری دے دی

کمپنی کا مؤقف ہے کہ جب گیس کی وافر فراہمی نہیں ہے تو نئے کنکشن کیسے دیے جاسکتے ہیں؟ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں بیک لاگ کو کم کرنے کے لیے نئے کنکشن دیے گئے تھے۔

گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نئے نرخ طے کرنے میں تاخیر بھی پابندی کی ایک بڑی وجہ ہے، گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نرخوں کو معقول بنانے کی وجہ ری گیسیفیکیشن کے بعد درآمدی ایل این جی کی فراہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے سامنے آئی جس کی لاگت بہت زیادہ ہے۔

بالآخر حکام گھریلو صارفین کے لیے قیمتوں کا ایک نیا فارمولا تیار کرنے پر مجبور ہوئے جسے تقریباً حتمی شکل دے دیا گیا ہے، نئے گیس کنکشن کے لیے 28 لاکھ درخواستوں کے بیک لاگ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 25 ہزار روپے کی فیس کے عوض ارجنٹ کیٹیگری میں گیس کنکشن حاصل کرنے کے خواہاں ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کی مہنگی ایل این جی کی خریداری پر لوڈشیڈنگ کو ترجیح

اگست میں ایس این جی پی ایل نے ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ اس کی ری گیسیفائیڈ لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کی کھپت مقامی سپلائی میں بڑے پیمانے پر کمی کی وجہ سے کُل سپلائی کے 55 فیصد تک پہنچ گئی ہے جس کے سبب آر ایل این جی پر انحصار بڑھ گیا۔

ایس این جی پی ایل نے گیس کے وزن کے مطابق اوسط قیمت متعارف کرانے کے حکومتی منصوبے کا بھی حوالہ دیا جس کے حوالے سے کمپنی نے دعویٰ کیا کہ اس سے عوام کے لیے آر ایل این جی کی قیمت میں تخفیف اور کمی ممکن ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024