خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کی سیشن کورٹ آمد، 13 اکتوبر تک ضمانت منظور
اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف دھمکی آمیز بیان پر درج مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری میں 13 اکتوبر تک توسیع کردی۔
اسلام آباد کے مجسٹریٹ رانا مجاہد رحیم نے 20 اگست کو درج مقدمے میں پیش نہ ہونے پر سابق وزیراعظم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری 30 ستمبر کو جاری کیے تھے، بعد ازاں عمران خان کی اتوار کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ سے 7 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور ہوئی تھی۔
عمران خان کے وارنٹ گرفتاری خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے کے کیس میں جاری کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ دھمکی کیس: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سیشن جج کامران بشارت مفتی کی عدالت میں پیش ہوئے۔
چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا نے عبوری درخواست ضمانت دائر کی، دوران سماعت وکیل بابر اعوان نے کہا کہ درخواست گزار بھی عدالت میں موجود ہے، جج نے استفسار کیا کہ کیا یہ پہلی ضمانت کی درخواست ہے جس پر وکیل بابر اعوان نے جواب دیا کہ جی پہلی ہے اور ایک کیس بھی 13 اکتوبر کے لیے لگا ہوا ہے۔
اس دوران مختصر سماعت کے بعد سیشن جج کامران بشارت مفتی نے عمران خان کی عبوری درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 50 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا اور پولیس کو آئندہ سماعت کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
پاکستان کو سیاسی تجربوں کی لیبارٹری نہ بنایا جائے، بابر اعوان
سماعت کے بعد عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزرا صبح شام بڑھکیں مارتے ہیں، ایک وزیر نے افواج پاکستان کے بارے میں ایک انتہائی نازیبا بات کی ہے جو پاکستان میں 70 برس میں شاید ہی کسی نے کی ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں 22 کروڑ عوام کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا ہے، یہ لوگ صرف منی لانڈرنگ کی جانب قیادت کر سکتے ہیں، ان کی یہی تربیت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں تبدیلی کی ضرورت ہے، 62 ون ایف سے پہلے ای اور ڈی آتا ہے، ای میں لکھا ہوا ہے کہ امیدوار اسلامی شعائر کا پابند ہوگا، ڈی میں لکھا ہوا ہے کہ وہ جھوٹا اور بدکردار نہیں ہوگا، 62 ون ایف میں لکھا ہوا ہے کہ وہ صادق اور امین ہوگا، آئین کا دیباچہ کہتا ہے کہ اس کائنات پر حکمرانی اللہ کی ہے اور پاکستان کی حکمرانی ہم اللہ کے احکامات کے مطابق چلانے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون میں اگر تبدیلی لانی ہے تو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے ہوگی، ان شا اللہ اگر پاکستان کے آئین میں اگر کوئی تبدیلی کر سکتا ہے تو وہ ایک ہی شخص عمران خان ہی ہے، ان شا اللہ عمران خان دو تہائی اکثریت کے ساتھ آرہے ہیں، موجودہ پارلیمنٹ کو ہم پاکستان کی نمائندہ پارلیمنٹ نہیں سمجھتے۔
بابر اعوان نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت سائفر کو حقیقت تسلیم کر چکی ہے اور یہ مان چکے ہیں کہ اس سائفر میں لکھا کیا تھا، انہوں نے یہ بھی مان لیا کہ یہ سائفر 7 تاریخ کو آیا اور تحریک عدم اعتماد 8 تاریخ کو جمع ہوئی، سائفر پڑھے بغیر جو سازش کا انکار کرتا ہے وہ دراصل سورج کا انکار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان شا اللہ جلد کال آنے والی ہے، پاکستان کو حقیقی آزادی کے لیے ہم اسلام آباد کی جانب ’لانگ واک ٹو فریڈم‘ کریں گے، تاریخ اور صورت کیا ہوگی یہ عمران خان بتائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سیاسی تجربوں کی لیبارٹری نہ بنایا جائے، اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں ڈالر 100 روپے پر لے آؤں گا، ڈالر بیشک 80 پر آجائے لیکن کیا بجلی کے بلوں پر کوئی فرق پڑا؟ ٹرانسپورٹ کرایوں اور مہنگائی پر کوئی فرق پڑا؟
بابر اعوان نے کہا کہ 90 کی دہائی کا وہ دور اب گزر چکا جب سائفر کی مدد سے منتخب وزیر اعظم کا عدالتی قتل کروا دیا گیا، اس کے بعد سے اب قوم جاگی ہوئی ہے اور اب عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، ہم سب سے بڑا عوامی اور جمہوری احتجاج کرنے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک جانب وہ لیڈر ہے جو عدالتوں میں جارہا ہے، ابھی بھی ہو کر گیا ہے اور دوسری طرف وہ ہے جو مفرور ہے، وہ مفرور پاکستان سے باہر بیٹھ کر پاکستان کی تقدیر بدلنے والے فیصلے کرے گا اس کو ہم قبول نہیں کریں گے۔
یاد رہے کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے بیان میں کہا تھا کہ 'چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا معاملہ ایک قانونی عمل ہے، عمران خان پچھلی پیشی پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے'۔
پولیس نے کہا تھا کہ 'عمران خان کی عدالت میں پیشی یقینی بنانے کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں اور معزز عدالت عالیہ نے مقدمہ نمبر 407/22 سے دہشت گردی کی دفعہ خارج کرنے کا حکم جاری کیا تھا'۔
مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: 'شاید ریڈ لائن کراس کردی، معافی مانگنے کو تیار ہوں'
انہوں نے کہا تھا کہ 'اس حکم کے بعد یہ مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کیا گیا تھا، عمران خان نے سیشن کورٹ سے ابھی تک اپنی ضمانت نہیں کروائی، پیش نہ ہونے کی صورت میں انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے'۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام 'نیا پاکستان' میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کا اجرا معمول کی بات ہے اور یہ قابل ضمانت ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ قابل ضمانت جرم ہے اس لیے گرفتاری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری جانب عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی خبر کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان پارٹی سربراہ کی رہائش گاہ بنی گالا میں جمع ہوگئے تھے۔
عمران خان کے خلاف مقدمہ
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب میں اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: عمران خان معذرت کرنے کیلئے خاتون جج زیبا چوہدری کی عدالت پہنچ گئے
اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔
عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
اس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان خاتون جج سے معافی مانگنے کو تیار، فرد جرم کی کارروائی مؤخر
تھانہ مارگلہ میں 20 اگست کو درج مقدمے میں عمران خان کے خلاف دفعہ 504/506 اور 188/189 لگا ئی گئی تھیں۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔
ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔
دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے کا حکم
بعد ازاں 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج دھمکی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ خارج کرنے کا حکم دیا تھا تاہم حکم میں کہا گیا تھا کہ دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔
مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس، عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے سماعت کل ہوگی
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی تھی اور وکلا کے دلائل کے بعد فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے آج (یکم اکتوبر) ڈسٹرکٹ ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع کرادیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں بطور چیئرمین تحریک انصاف گزشتہ 26 سال سے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کے احترام اور آزادی کے جدوجہد کررہا ہوں اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے برعکس میں نے ہمیشہ ہر عوامی اجتماع میں قانون کی حکمرانی کی بات کی۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں کیس کی کارروائی کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاید میں نے 20 اگست 2022 کو عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کردی۔
انہوں نے کہا کہ میرا مقصد کبھی ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جزز کو دھمکی دینا نہیں تھا نہ ہی اس بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کے سوا کےکوئی ارادہ تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جج کے سامنے یہ وضاحت کرنے کو تیار ہوں کہ نہ میں نے اور نہ میری پارٹی نے معزز جج کے خلاف کسی کارروائی کی درخواست کی اور اگر جج کو یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر میں نے لائن کراس کردی تھی تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔