آرمی چیف کی امریکی وزیر دفاع سے ملاقات، دفاعی شراکت داری کی تجدید پر غور
امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن نے کہا ہے کہ دورہ امریکا پر موجود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کی گفتگو دونوں ممالک کے دفاعی اداروں کے درمیان دیرینہ شراکت داری اور باہمی دلچسپی کے امور پر مرکوز رہی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی ایک ٹوئٹ میں اس شراکت داری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ رواں برس پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی 75 ویں سالگرہ ہے۔
امریکی وزارت دفاع کی جانب سے جاری ایک علیحدہ بیان میں کہا گیا کہ 4 اکتوبر کو امریکی وزیر دفاع نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر پینٹاگون میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی میزبانی کی۔
پینٹاگون نے کہا کہ ’یہ دیرینہ شراکت داری آج بھی جاری ہے جس میں ہماری توجہ اہم باہمی دفاعی مفادات پر مرکوز رہی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورۂ امریکا، اہم ملاقاتیں متوقع
پاکس فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی اپنے بیان میں اس نکتے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں شخصیات نے علاقائی سلامتی کی صورتحال اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ ملاقات کے دوران پاکستان میں سیلاب زدگان کی بحالی اور دونوں اتحادیوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لیے امریکا کے مسلسل تعاون کی ضرورت کا اعادہ کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’دونوں فریقین نے افغانستان سمیت اہم عالمی امور پر اتفاق کیا اور انسانی بحران سے بچنے اور خطے میں امن و استحکام کو بہتر بنانے کے لیے تعاون کی ضرورت پر بھی اتفاق کیا‘۔
تاہم واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کے ساتھ بات چیت میں مضبوط دفاعی شراکت داری کی تجدید پر توجہ مرکوز کی گئی جو ماضی میں دونوں اتحادیوں کے درمیان موجود رہی ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا، پاکستان کے ساتھ تعلقات ترک کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، رپورٹ
سفارتی مبصرین اس کوشش کو امریکی محکمہ خارجہ کے اس حالیہ اعلان کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں جس میں امریکی محکمہ خارجہ نے کانگریس کو پاکستان کے ایف-16 طیاروں کے بیڑے کے لیے 45 کروڑ ڈالر جاری کرنے کی ہدایت دی۔
اس اعلان کے بعد بھارت کی جانب سے تنقید کی گئی کہ یہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال کیے جائیں گے تاہم امریکا نے بھارت کی اس تنقید کو مسترد کر دیا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’پاکستان کے لیے یہ پروگرام پاکستان یا خطے سے پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اس کی صلاحیت کو تقویت دیتا ہے، ان خطرات میں بلا رکاوٹ اضافہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے‘۔
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر بھی اس تقریب میں موجود تھے جہاں انٹونی بلنکن نے ان طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے پاکستان کے حق کا دفاع کیا لیکن انہوں نے انٹونی بلنکن کے ان ریمارکس کو نظر انداز کر دیا جبکہ اس سے قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ اس طرح کے بیانات سے کسی کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔