بات سیاسی لوگوں سے ہی ہوگی مجرموں کے ساتھ نہیں، عمران خان
سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور سیاسی لوگ بات ہی کرتے ہیں بندوق نہیں اٹھاتے، اس لیے بات سیاسی لوگوں سے ہی ہوگی مجرموں کے ساتھ نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جس طرح چوروں کو دوسری بار این آر او دیا جارہا ہے اس سے لوگ مایوس ہیں، آج لوگوں میں مایوسی پھیل چکی ہے۔
مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: 'شاید ریڈ لائن کراس کردی، معافی مانگنے کو تیار ہوں'
صحافی کی جانب سے مریم نواز کو پاسپورٹ واپس ملنے سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ اس ملک میں قانون کی بالادستی نہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں سیاسی لوگ بات ہی کرتے ہیں بندوق نہیں اٹھاتے، اس لیے بات سیاسی لوگوں سے ہی ہوگی مجرموں کے ساتھ نہیں۔
اسمبلی میں واپس جانے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا کہ ہم اسمبلی میں واپس نہیں بیٹھیں گے۔
سابق وزیر اعظم نے’طاقتور لوگوں‘ سے بات چیت کی خبروں سے متعلق سوال پر کہا کہ سیاستدان بات چیت کیا کرتا ہے مگر مجرموں سے بات نہیں ہوگی، سیاستدان کے بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب بات چیت چل رہی ہو تو عقلمندی کا ثبوت ہے کہ خاموش رہا جائے۔
عمران خان نے کہا کہ مجھ پر صرف ایک کیس باقی رہ گیا ہے جو اس حکومت نے نہیں بنایا وہ یہ کہ چائے میں روٹی ڈبو کر کیوں کھاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: عمران خان معذرت کرنے کیلئے خاتون جج زیبا چوہدری کی عدالت پہنچ گئے
ٹیلی تھون رقم سے متعلق سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ٹیلی تھون سے جمع رقم ہفتے سے سیلاب متاثرین میں تقسیم کریں گے اور وہ رقم سب صوبوں میں تقسیم کی جائے گی۔
سائفر کی کاپی غائب ہونے سے متعلق سوال پر عمران خان صرف مسکرا کر خاموش ہو گئے۔
واضح رہے کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف ڈسٹرکٹ ایڈیشنل خاتون جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر ان کی معافی قبول کرتے ہوئے ان کے خلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس خارج کردیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے بیان حلفی جمع کرا دیا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کا بیان حلفی پڑھا ہے، کچھ اور کہنا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں یہ توہین عدالت تھی، تاہم عمران خان کے رویے کو دیکھتے ہوئے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر رہے ہیں۔