مقبوضہ کشمیر کی ثقافتی اور مذہبی شناخت خطرے میں ہے
بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلسل کشمیری ثقافت اور شناخت پر حملے کررہی ہے۔ ساتھ ہی وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوتوا نظریات کو بھی فروغ دے رہی ہے۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ایک حالیہ ٹوئیٹ میں یہ نشاندہی کی ہے کہ کلگام اور دیگر علاقوں کے اسکولوں میں طلبہ کو بھجن گانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک مسلمان طالبِ علم کی بھجن گانے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کے نتیجے میں مسلمان تنظیموں نے سخت احتجاج کیا۔
30 کشمیری تنظیموں پر مشتمل متحدہ علما کونسل نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل ’نوجوان نسل کی بھارتی ہندوتوا خیالات سے نام نہاد ہم آہنگی‘ کو تیز تر کرنے کی کوشش ہے۔ کونسل نے یہ بھی کہا کہ یہ اس خطے کی مسلم شناخت کو مٹانے کی کوشش ہے۔
مزید پڑھیے: آخر کشمیر اہمیت کیوں رکھتا ہے؟
متحدہ علما کونسل کی قیادت کشمیری رہنما میر واعظ عمر فاروق کرتے ہیں جو گزشتہ 3 برسوں سے قید میں ہیں۔ علما کونسل نے حال ہی میں بھارت کی جانب سے مذہبی رہنماؤں کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے اس عمل کو مسلمان علما کو دھمکانے اور ان کا کردار محدود کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
گزشتہ ماہ کشمیر میں مسلم گروپوں پر کریک ڈاؤن کیا گیا اور کئی علما پر نام نہاد پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمات بنائے گئے جبکہ 2 علما کو گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتاریوں کی پاکستان کی جانب سے بھرپور مذمت کی گئی اور دفترِ خارجہ کے ایک بیان میں علما کی غیر قانونی گرفتاریوں کو ’بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کو ان کی مذہبی اور ثقافتی شناخت سے محروم کرنے کوشش‘ قرار دیا۔
بی جے پی نے جموں و کشمیر وقف بورڈ کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے جس کے نتیجے میں اس خطے میں موجود بورڈ کی تمام جگہیں بشمول سری نگر کی تاریخی عید گاہ اب اسی کے کنٹرول میں ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے نائب سربراہ شبیر شاہ نے جیل سے دیے گئے اپنے بیان میں اس عمل کی مذمت کی ہے اور بی جے پی حکومت پر مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ دیگر کشمیری رہنماؤں نے اسے بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کے لیے مذہبی اہمیت کے حامل مقامات پر قبضے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ان مقامات میں مزارات بھی شامل ہیں۔
ایک کشمیری صحافی نے مجھے بتایا کہ ’مزارات کا کنٹرول حاصل کرنا کوئی عام بات نہیں ہے، یہ ایک جابرانہ قدم ہے جس کا مقصد ان کے سیاسی کردار اور ان کی مسلم شناخت کو ختم کرنا ہے‘۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ مزارات کشمیر کے سیاسی و معاشرتی منظرنامے کا اہم حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزارات ’نہ صرف عبادت کی جگہ ہیں بلکہ دہائیوں سے جاری قبضے کے نتیجے میں اب یہ وہ واحد مقام ہیں جہاں کشمیری آپس میں مل سکتے ہیں اور بات چیت کرسکتے ہیں۔ لیکن اب اس جگہ کو بھی چھین لیا گیا ہے‘۔
بی جے پی نے کشمیری ثقافت کے خلاف مزید اقدامات بھی کیے ہیں۔
گزشتہ 100 سال سے بھی زائد عرصے سے جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اردو تھی لیکن 2020ء میں بھارت کی حکمران جماعت نے اردو کی یہ خصوصی حیثیت ختم کردی اور اردو اور انگریزی کے علاوہ ہندی، کشمیری اور ڈوگری زبان کو بھی جموں و کشمیر کی سرکاری زبان قرار دے دیا۔ اس وقت کشمری زبان کے خط کو بھی نستعلیق سے دیوناگری خط میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مقبوضہ وادی میں موجود کشمیری ذرائع کے مطابق غیر اعلانیہ اور غیر سرکاری طور پر ایسا کیا جاچکا ہے۔
کشمیریوں کے حقوق غصب کرنے اور ان کی مسلم شناخت تبدیل کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا سلسلہ 5 اگست 2019ء کے بعد سے شروع ہوا جب بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کا غیر قانونی طور پر بھارت کے ساتھ الحاق کیا۔ بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا جو ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کرتا تھا۔ بھارت کا یہ عمل اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی کئی قراردادوں کی کُھلی خلاف ورزی تھی۔ یہ قراردادیں دونوں فریقین کو کشمیر کے حالات میں کوئی بھی مادی تبدیلی لانے سے روکتی ہیں۔
مزید پڑھیے: جموں و کشمیر کی کہانی ایک کشمیری کی زبانی
اس کے بعد بھارت نے جموں و کشمیر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا اور رابطے منجمد کردیے۔ ساتھ ہی سیاسی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی کیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’وی آر بِینگ پَنِشڈ بائے دی لا‘ کے نام سے ستمبر 2022ء میں ایک بریفنگ جاری کی۔ اس بریفنگ میں بتایا گیا کہ اگست 2019ء کے بعد کے 3 سالوں میں ’بھارتی حکومت نے کشمیریوں کے متعدد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذریعے ان پر مزید جبر ڈھایا ہے۔ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں میں اظہارِ رائے کی آزادی، فرد کی سلامتی اور آمد و رفت، نجی زندگی اور انصاف تک رسائی کی آزادی کے حق کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ حکومت نے بلا خوف ان حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں‘۔
بھارت نے بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے روگردانی کرتے ہوئے کشمیر کے مسلمانوں کو بے اختیار کرنے کے لیے انتظامی اور آبادیاتی تبدیلیاں کی ہیں۔ بھارت نے نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کروائے ہیں اور اگست 2019ء کے بعد سے کشمیر سے باہر رہنے والے غیر کشمیریوں کو 34 لاکھ ڈومیسائل جاری کیے ہیں۔ یہ غیر کشمیری افراد بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے ختم ہونے کے بعد کشمیری ڈومیسائل کے اہل ہوئے۔ یہ اقدام اسرائیل کی غیرقانونی آبادکاری کی پالیسی کا عکس ہے اور قابض قوتوں کا ایک حربہ ہوتا ہے۔
مودی حکومت نے اپنی مرضی کی انتخابی حلقہ بندیاں بھی کیں تاکہ مسلمانوں کی نمائندگی کو کم کیا جاسکے اور خطے کا سیاسی توازن ہندوؤں کے حق میں کیا جاسکے۔
بھارت کے حلقہ بندی کمیشن نے مئی 2022ء میں نئے حلقے بنانے کا اعلان کیا تھا۔ یوں 90 رکنی جموں و کشمیر اسمبلی میں جموں کی مزید 6 نشستوں کا اضافہ ہوگیا جبکہ کشمیر کی نشستوں میں بھی ایک نشست کا اضافہ ہونا ہے۔ اس طرح جموں کی کُل نشستیں 43 اور کشمیر کی کُل نشستیں 47 ہوجائیں گی۔
اس اقدام کے پیچھے موجود عزائم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2011ء کی مردم شماری (بھارت میں اس کے بعد کوئی مردم شماری نہیں ہوئی) کے مطابق کشمیر کی آبادی تقریباً 70 لاکھ جبکہ جموں کی آبادی تقریباً 53 لاکھ ہے۔ یہ 11 سال پرانے اعداد و شمار ہیں اور موجودہ اعداد و شمار کا تخمینہ اس سے زیادہ کا ہی ہے۔
مزید پڑھیے: 5 اگست 2019 سے 5 فروری 2020 تک مقبوضہ کشمیر کی آپ بیتی
ان حلقہ بندیوں کا مقصد ایسے انتخابات کروانا ہے جن کے نتیجے میں مودی حکومت یہ دعوٰی کرسکے کہ اب صورتحال ’معمول‘ پر ہے اور اس سے اگست 2019ء کے اقدام کی حمایت ہو۔ تاہم اس منصوبے کو کشمیری رہنماؤں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان رہنماؤں میں وہ بھارت نواز سیاستدان بھی شامل تھے جو ماضی میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔
آل پارٹیز حریت کانفرنس نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ سب نے ہی اس منصوبے کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور یہ کہتے ہوئے مسترد کیا کہ یہ ’ایک فرد ایک ووٹ‘ کے اصول کے خلاف ہے۔ جولائی میں خطے کی آبادیات تبدیل کرنے کی ایک اور کوشش کی گئی اور مقبوضہ وادی میں موجود چیف الیکٹورل افسر نے ہر بھارتی شہری چاہے وہ عارضی طور پر ہی رہائش پذیر ہو کو کشمیر میں ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا۔
کیا مودی حکومت اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ کیا زور زبردستی اور انتظامی احکامات کے ذریعے کشمیر کی مسلم شناخت کو اتنی آسانی سے مسخ کیا جاسکتا ہے؟ درحقیقت ان اقدامات نے کشمیریوں کے غم و غصے میں مزید اضافہ کردیا ہے اور ان کے جزبہ مزاحمت کو مزید توانا کردیا ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ فاروق عبداللہ نے بہت پہلے ہی خبردار کردیا تھا کہ ’کشمیر کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ سکتا ہے‘۔
یہ مضمون 03 اکتوبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں