آڈیو لیکس، سائفر سے متعلق تحقیقات سپریم کورٹ کا کمیشن کرے، فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے وفاقی حکومت کی جانب سے سفارتی سائفر کے حوالے تحقیقات کے اعلان کو درست گردانتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے لیے سپریم کورٹ کا کمیشن بنایا جائے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ 'عمران خان کی حکومت ایک سازش کے تحت ہٹائی گئی، اس ضمن میں سائفر کی تحقیقات پرحکومتی آمادگی درست سمت میں قدم ہے'۔
مزید پڑھیں: سائفر آڈیو لیکس: کابینہ نے عمران خان و ساتھیوں کےخلاف قانونی کارروائی کی منظوری دے دی
سائفر تحقیقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ تحقیقات ایف آئی اے (وفاقی تحقیقاتی ادارہ) کے بجائے سپریم کورٹ کا بنایا کمیشن کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے'۔
فواد چوہدری نے کہا کہ 'اسی طرح کا کمیشن آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے چاہییے'۔
پی ٹی آئی کے ٹوئٹر سے جاری ویڈیو بیان میں فرخ حبیب نے اپنے بیان میں کہا کہ 'عمران خان کے حتمی کال کا انتظار ہے، جیسے کال آئے گی تو پھر اسلام آباد میں بیٹھی کرپٹ حکومت جو انتقامی کارروائیاں کرنا چاہتی ہے اور غیرقانونی اقدامات کررہی ہے، اس کی مشکلات میں اضافہ ہوگا'۔
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے، ایف آئی اے کی تحقیقات مسترد کرتے ہیں، تحقیقات سائفر کی ہونی چاہیے اور سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن بنے، جس کی میڈیا کے سامنے اوپن سماعت ہو'۔
فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے پاس اس سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرکے بھیج دیا گیا تھا اور جب یہ حکومت اپنے تابع ایف آئی اے کو انتقام کے لیے استعمال کرے گی تو ہم اس قسم کی تحقیقات کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
اسسے قبل وفاقی کابینہ نے سفارتی سائفر سے متعلق لیک ہونے والی آڈیوز پر سابق وزیر اعظم عمران خان، ان کے ساتھی وزرا اور سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے خلاف قانونی کارروائی کی باضابطہ منظوری دے دی ہے.
یہ بھی پڑھیں: 'سائفر سے صرف کھیلنا ہے'، عمران خان کی اعظم خان سے مبینہ گفتگو کی آڈیو لیک
بیان میں کہا گیا کہ کابینہ نے 'ڈپلومیٹک سائفر' سے متعلق آڈیو لیک پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ذریعے تحقیقات اور قانونی کارروائی کی منظوری دی۔
خیال رہے کہ کابینہ نے 30 ستمبر کو عمران خان کی سفارتی سائفر سے متعلق آڈیو لیک پر کابینہ کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے یکم اکتوبر کو منعقدہ اجلاس میں قانونی کارروائی کی سفارش کی تھی۔
بعد ازاں کابینہ کمیٹی کی سفارشات کو سمری کی شکل میں وفاقی کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کیا گیا جن کی کابینہ نے 'سرکولیشن' کے ذریعے منظوری دی۔
کابینہ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ 'یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس کے قومی مفادات پر سنگین مضر اثرات ہیں، اس لیے اس پر قانونی کارروائی لازم ہے'۔
کابینہ کمیٹی نے سفارش کی کہ ایف آئی اے سینئر حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے، جس میں انٹیلی جنس اداروں سے بھی افسران اور اہلکاروں کو ٹیم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
سمری میں کابینہ کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ ایف آئی اے کی ٹیم جرم کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔
اگرچہ انہوں نے ابتدائی طور پر دھمکی آمیز خط کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں لیکن اس کے بعد ناقدین کی جانب سے ان کے دعوے پر شک کرنے کی وجہ سے تھوڑی تفصیلات دیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے اس سفارتی کیبل کو اپنا اقتدار ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا تھا۔
اجلاس میں مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں ’کھلی مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا سفارتی طور پر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس ہوا تھا جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں: 'کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے'، عمران خان کی مبینہ سائفر سے متعلق دوسری آڈیو لیک
گزشتہ ہفتے اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان کی اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر کی مبینہ آڈیوز سامنے آئی تھیں، جس میں حکمت عملی بنائی جارہی تھی.
پہلی آڈیو میں مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر۔’
گفتگو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے کہا کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو سائفر ہے میرا خیال ہے ایک میٹنگ اس پر کر لیتے ہیں، جس میں شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ ہوں گے، شاہ محمود کو کہیں گے کہ وہ لیٹر پڑھ کر سنائیں، وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اسے کاپی میں بدل دیں گے، وہ میں منٹس میں (تبدیل) کردوں گا کہ سیکریٹری خارجہ نے یہ چیز بنادی ہے‘.
آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے مزید کہا کہ ’بس اس کا کام یہ ہوگا کہ اس کا تجزیہ ہوگا جو اپنی مرضی کے منٹس میں کردیں گے تاکہ دفتری ریکارڈ میں آجائے اور تجزیہ یہی ہوگا کہ سفارتی روایات کے خلاف دھمکی دی گئی، سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں‘.
دوسری آڈیو لیک میں مبینہ طور پر عمران خان پارٹی رہنماؤں اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم عمران خان سے گفتگو کرتے سنائی دیے۔
آڈیو میں عمران خان کہتے ہیں کہ ’اچھا شاہ جی، کل آپ نے، ہم نے، تینوں نے اور سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ کرنی ہے، اس میں ہم نے صرف کہنا ہے کہ وہ جو لیٹر ہے نا اس کے چپ کر کے مرضی کے منٹس لکھ دے، اعظم خان کہہ رہا ہے کہ اس کے منٹس بنا لیتے ہیں، اسے فوٹو اسٹیٹ کرا لیتے ہیں‘۔
عمران خان کہتے ہیں کہ 'ہم نے تو امریکیوں کا نام لینا ہی نہیں ہے، کسی صورت میں، اس ایشو کے اوپر پلیز کسی کے منہ سے امریکا کا نام نہ نکلے، یہ بہت اہم ہے آپ سب کے لیے، کس ملک سے لیٹر آیا ہے، میں کسی کے منہ سے اس کا نام نہیں سننا چاہتا'۔
اس دوران مبینہ طور پر اسد عمر کہتے ہیں کہ 'لیٹر نہیں ہے، میٹنگ کی ٹرانسکرپٹ ہے'، اس پر عمران خان کہتے ہیں کہ 'وہی ہے نا، میٹنگ کی ٹرانسکپرٹ اور لیٹر ایک ہی چیز ہے، لوگوں کو ٹرانسکرپٹ تو نہیں سمجھ آنی تھی نا، آپ پبلک جلسے میں تو یہ کہتے ہیں'۔