• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

جج دھمکی کیس: عمران خان کی عبوری ضمانت منظور

شائع October 2, 2022 اپ ڈیٹ October 3, 2022
عمران خان نے اپنے وکیل بابر اعوان کے توسط سے درخواست ضمانت دائر کی تھی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان نے اپنے وکیل بابر اعوان کے توسط سے درخواست ضمانت دائر کی تھی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج دھمکی کیس میں 10 ہزار روپے کے مچلکے کے عوض پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرلی۔

عمران خان نے اپنے وکیل بابر اعوان کے توسط سے درخواست ضمانت دائر کی تھی جس پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔

ساتھ ہی عدالت نے انہیں جمعہ سے قبل متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی بھی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ دھمکی کیس: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری

خیال رہے کہ گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے جن کے پیشِ نظر آج اتوار کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی عبوری ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

چھٹی کے روز ہی ہائی کورٹ دائری برانچ کا عملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچا اور درخواست پر جسٹس محسن اختر کیانی نے چیمبر میں سماعت کی اور پولیس کو ان کی گرفتاری سے روک دیا۔

درخواست ضمانت میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عمران خان کے خلاف ابتدائی طور پر دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔

درخواست میں بتایا گیا کہ ہائی کورٹ نے دہشت گردی کی دفعات ختم کیں تو کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت سے منتقل ہوگیا جس پر ضمانت بھی مسترد ہوگئی۔

مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: 'شاید ریڈ لائن کراس کردی، معافی مانگنے کو تیار ہوں'

درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ سیاسی مخالف حکومت نے بدنیتی کے تحت مذموم مقاصد کے لیے جھوٹا مقدمہ بنایا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ کیس درج کرنے کا واحد مقصد کرپشن مافیا کے خلاف پرامن تحریک اور عمران خان کو گرفتار کر کے پرامن سیاسی تحریک کو روکنا ہے۔

عمران خان کے خلاف جتنے کیسز بنے کسی سیاسی رہنما پر نہیں بنے، بابر اعوان

عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ 10 ہزار روپے کے مچلکے پر ضمانت ہوئی ہے اور عدالت نے 7 اکتوبر سے قبل متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کے خلاف جتنے کیسز بنے کسی سیاسی رہنما پر نہیں بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں، کیسز انہوں نے کر لیے اب کیسز کی باری ہماری ہے، پیر کے روز سے ہم ان کے خلاف کیسز اور توشہ خانہ میں جائیں گے۔

بابر اعوان کا کہنا تھا کہ پوری مسلم لیگ (ن) عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے تڑپ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کل پورا پاکستان اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا، 'امپورٹڈ حکومت' کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک کال پر پاکستان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے یہ نہیں کہا کہ میں بیمار ہوں کیوں کہ مجھ پر پرچہ ہوگیا بلکہ عمران خان اور میں ہر جگہ پہنچے۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

سابق وزیر اعظم عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب میں اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: عمران خان معذرت کرنے کیلئے خاتون جج زیبا چوہدری کی عدالت پہنچ گئے

اس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

تھانہ مارگلہ میں 20 اگست کو درج مقدمے میں عمران خان کے خلاف دفعہ 504/506 اور 188/189 لگائی گئی تھیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے کا حکم

بعد ازاں 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج دھمکی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ خارج کرنے کا حکم دیا تھا تاہم حکم میں کہا گیا تھا کہ دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔

مزید پڑھیں: معافی نہ مانگنے سے مانگنے تک کا سفر: عدالت میں کیا کچھ ہوتا رہا

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی تھی اور وکلا کے دلائل کے بعد فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے آج (یکم اکتوبر) ڈسٹرکٹ ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع کرایا۔

انہوں نے کہا کہ میں بطور چیئرمین تحریک انصاف گزشتہ 26 سال سے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کے احترام اور آزادی کے جدوجہد کررہا ہوں اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے برعکس میں نے ہمیشہ ہر عوامی اجتماع میں قانون کی حکمرانی کی بات کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں کیس کی کارروائی کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاید میں نے 20 اگست 2022 کو عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کردی۔

انہوں نے کہا کہ میرا مقصد کبھی ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جزز کو دھمکی دینا نہیں تھا نہ ہی اس بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کے سوا کےکوئی ارادہ تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جج کے سامنے یہ وضاحت کرنے کو تیار ہوں کہ نہ میں نے اور نہ میری پارٹی نے معزز جج کے خلاف کسی کارروائی کی درخواست کی اور اگر جج کو یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر میں نے لائن کراس کردی تھی تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024