‘ہم امن چاہتے ہیں’، سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف مظاہرہ
سوات کی تحصیل مٹہ کی سڑکیں ‘ہم امن چاہتے ہیں’ کے نعروں سے گونج اٹھیں، جہاں پر عسکریت پسندی کی حالیہ لہر کے خلاف سیکڑوں افراد نے احتجاج کیا۔
سوات کی تحصیل کبل میں 13 ستمبر کو ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان، 2 پولیس گارڈز رامیل اور توحید اور ایک بچہ کوٹاکے سے بنڈائی گاؤں جا رہے تھے کہ کچی سڑک پر نصب بم پھٹنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے، دھماکے میں 2 راہگیر بھی جاں بحق ہوئے تھے، بعدازاں دو مزید لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
اس واقعے کے بعد سوات اور شانگلہ میں لوگوں نے احتجاج کیا تھا، گزشتہ ہفتے سوات کی مٹہ اور کبل تحصیل میں سیکیورٹی پوسٹس قائم کر دی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سوات: ‘دہشت گردی کی بڑھتی لہر’ کے خلاف سیکڑوں افراد کا احتجاج
آج نمایاں تعداد میں بزرگ، نوجوان اور سیاسی کارکنان خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے گھر کے پاس مٹہ چوک پر جمع ہوئے اور ریاست سے امن کا مطالبہ کیا۔
یہ ریلی دہشت گردی، انٹرنیٹ کی بندش اور رات میں نامعلوم افراد کی جانب سے گھروں پر پتھر پھینکنے کے خلاف نکالی گئی تھی۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین، ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما مختیار یوسف زئی، عوامی نیشنل پارٹی کے ایوب، پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر امجد اور دیگر لوگوں نے ریلی سے خطاب کیا۔
ان لوگوں کا کہنا تھا کہ سوات میں سیکیورٹی فورسز کی نمایاں تعداد میں موجودگی کے باوجود عسکریت پسندوں کی واپسی سوالات کئی کو جنم دے رہی ہے۔
پی پی پی کے مقامی رہنما ڈاکٹر امجد نے کہا کہ 2007 کے مقابلے میں سوات 2022 میں مختلف ہے، ہم عسکریت پسندوں کے جھوٹے نعروں سے دھوکا نہیں کھائیں گے، اس بار ہم نہ صرف دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کریں گے بلکہ ان کے خلاف مزاحمت بھی کریں گے۔
مزید پڑھیں: سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے
مظاہرین کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 دنوں سے نامعلوم افراد کی جانب سے مٹہ تحصیل کے مختلف دیہاتوں میں رات کے اوقات میں گھروں پر پتھر پھینکے جارہے ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں۔
مختیار یوسف زئی نے کہا کہ ان کے دیہاتوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی کے باوجود شرپسند گاؤں میں داخل ہو کر ہمارے گھروں پر پتھر مارتے ہیں اور باآسانی واپس چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے شرپسند عناصر کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو مقامی شہری ان سے ‘آہنی ہاتھوں’ سے نمٹیں گے۔
منظور پشتین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں امن سبوتاژ کرنے کا مطلب پورے صوبے کا امن خراب کرنا ہے، جس سے برداشت نہیں کیا جائے گا، اگر اس بار نام نہاد عسکریت پسند امن خراب کرنے کی کوشش کریں گے تو پورے خیبر پختونخوا سے لوگ ان کے خلاف مزاحمت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار کوئی سوات سے نہیں جائے گا بلکہ وادی عسکریت پسندوں کے خلاف کھڑی ہوگی، ہم عسکریت پسندوں سے کسی مذاکرات کو قبول نہیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس کا سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا اعتراف
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ پہلے لوگ عسکریت پسندوں کے حقائق سے واقف نہیں تھے لیکن اس بار صورت حال مختلف ہے، بزرگ، نوجوان اور بچے سب باخبر ہیں اور اسی وجہ سے وہ پُرامن سوات کے لیے سڑکوں پر موجود ہیں۔
احتجاج میں شریک ایک شہری نے کہا کہ فوری طور پر امن یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، گھروں پر پتھر مارنے والوں کو گرفتار کریں اور مٹہ تحصیل میں انٹرنیٹ بحال کریں ورنہ سوات کے لوگ سڑکیں بلاک کر دیں گے۔