'زرِمبادلہ آتا کسے اچھا نہیں لگتا، لیکن چینی برآمد کرکے عوام پر بوجھ نہیں ڈال سکتا'
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس وقت ملک کے لیے ایک ایک ڈالر قیمتی ہے لیکن میں نے چینی برآمد کرنے سے انکار کردیا ہے کیوں کہ چینی کی قیمت بڑھی تو عوام مجھے معاف نہیں کریں گے۔
اسپیشل کورٹ سینٹرل میں منی لانڈرنگ مقدمے کی پیشی کے موقع پر انہوں نے عدالتی روسٹرم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ زرمبادلہ آتا کسے اچھا نہیں لگتا، لیکن میں عوام پر چینی مہنگی کرنے کا بوجھ نہیں ڈال سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ ماہ جب چینی کا سیزن شروع ہوگا اس وقت ہم دیکھیں گے کہ برآمد کا کیا کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم، آئی ایم ایف سے قرض پروگرام میں نرمی کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب
اپنے کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے خلاف چینی اور منی لانڈرنگ کا جھوٹا کیس بنایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں 10 سال وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہا اور بطور وزیر اعلیٰ ایسے فیصلے کیے جس سے میرے خاندان کا نقصان ہوا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے شوگر ملز کو سبسڈی دینے کی سمری مسترد کی اور کہا تھا کہ یہ پنجاب کے غریب عوام کا پیسہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب مشکل ترین حالات میں مجھے اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے، پارٹی قائد نے سیاست کو داؤ پر لگا کر ریاست کو بچانے کی ذمہ داری دی ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم کا تمام وزرا کو سیلاب زدہ علاقوں میں جانے کا حکم
شہباز شریف نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت اوپر جارہی ہے، ملک میں سیلاب ہے، ہمارے لیے اب ایک ایک ڈالر قیمتی ہے، لیکن میں نے چینی برآمد کرنے سے انکار کردیا ہے۔
دوران سماعت شہباز شریف نے کہا کہ میں عدالتی حکم پر عدالت پیش ہوا ہوں ورنہ اسلام آباد میں آج اہم مصروفیات ہیں، میں جانا چاہتا ہوں عدالت مجھے جانے کی اجازت دے۔
بعد ازاں جج نے شہباز شریف کو جانے کی اجازت دے دی۔
منی لانڈرنگ مقدمے کی سماعت
دوسری جانب لاہور میں اسپیشل کورٹ سینٹرل میں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے آغاز میں حمزہ شہباز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز بیمار ہیں میڈیا پر بھی نہیں آرہے ان کی طبی بنیادوں پر حاضری معافی کی درخواست دائر کی ہے۔
جج اسپیشل کورٹ سینٹرل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے گاڑی میں ہی بیٹھ کر آنا تھا، آجاتے۔
امجد پرویز نے کہا کہ حمزہ شہباز کا میڈیکل سرٹیفکیٹ درخواست کے ساتھ منسلک کیا ہے، میڈیکل سرٹیفکیٹ پڑھ لیں، میں بتانا نہیں چاہتا ورنہ سب کچھ میڈیا پر چل جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: وزیراعظم، حمزہ شہباز کی بریت کی درخواستیں، فرد جرم ایک بار پھر مؤخر
البتہ وزیر اعظم شہباز شریف عدالت میں پیش ہوئے اور ان کی بریت کی درخواست پر ان کے وکیل امجد پرویز کے دلائل دیے۔
وکیل نے کہا کہ شہباز شریف پر لگایا گیا الزام عمومی نوعیت کا ہے، شہباز شریف نہ کسی کے کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں نہ شیئر ہولڈر ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں کہا گیا کہ منی لانڈرنگ کرنے والی کمپنیز شریف گروپ آف کمپنیز کی ملکیت ہیں۔
وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق 25 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی، 2 ارب 80 کروڑ کے ایک اکاؤنٹ کو ایف آئی آر میں شامل کیا گیا لیکن چالان سے نکال دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ 2 ارب سے زائد کے اکاؤنٹ کو چالان میں شامل کیوں نہیں کیا گیا، مشتاق چینی کے اکاؤنٹ کو سرے سے چالان سے نکالا گیا۔
اس پر ایف آئی اے کے وکیل نے بتایا کہ جن اکاؤنٹس کا تعلق شریف فیملی سے نہیں تھا انہیں ہم نے چالان سے نکال دیا ہے، اسی لیے چالان کم ہو کر 26 ارب تک آیا۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: سلیمان شہباز کے مزید 13 بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم
امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد رکھنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔
جس پر جج اعجاز حسن اعوان نے ریمارکس دیے کہ لیکن یہ ڈکلیئر ہونی چاہیے ورنہ یہ بلیک منی ہوگی۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ٹیکس کے معاملات کے لیے الگ ادارہ ایف بی آر موجود ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ بظاہر نیب اور ایف آئی اے سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر اس وقت درج کی گئی جب شہباز شریف جیل میں تھے، ایف آئی اے کے مطابق چینی کی فروخت میں 4 ارب روپے چھپائے گئے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایف آئی اے کو اس الزام پر تفتیش کا اختیار ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت 8 اکتوبر تک ملتوی کردی اور آئندہ سماعت پر بریت کی درخواست پر مزید دلائل طلب کرلیے۔
تبصرے (1) بند ہیں