لاہور پولیس کی پھرتیاں، ڈکیتی کے شکار شخص کے خلاف ملزمان کے اغوا کا مقدمہ درج
صوبائی دارالحکومت لاہور کے تفتیشی افسران مجرمان کی گرفتاری اور انہیں عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلوانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق شاہدرہ پولیس اسٹیشن میں ظہور احمد کی جانب سے درج کرایا گیا ڈکیتی کا مقدمہ پولیس کی ’ناکام کارکردگی‘ کی بہترین مثال ہے۔
گجرپورہ پولیس نے مقدمے کی تحقیقات اور ظہور احمد کی مدد کرنے کے بجائے الٹا شاہدرہ ملزمان کے اغوا کا مقدمہ شکایت گزار ظہور احمد کے خلاف درج کرلیا جو گزشتہ سال شاہدہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں ان کی قیمتی اشیا لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سال 2021 کے دوران لاہور میں جرائم کے واقعات میں 57 فیصد اضافہ
ظہور احمد نے بتایا کہ پچھلے سال انہوں نے ملزمان کی جانب سے قیمتی سامان لوٹنے پر شاہدرہ پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کروایا تھا۔
پولیس نے بزرگ شہری ظہور احمد کو مشتبہ افراد کے خلاف درج مقدمے کی پیروی کرنے پر نشانہ بنایا، بدنام زمانہ گروپ سے تعلق رکھنے والے ان مشتبہ افراد کا نہ صرف جرائم کا ریکارڈ موجود ہے بلکہ یہ انتہائی بااثر مجرمان بھی ہیں، پولیس کی جانب سے نشانہ بنائے جانے پر ظہور احمد اور ان کے اہلخانہ اس کیس سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے۔
گزشتہ سال 7 مئی کو ظہور احمد بیگم کوٹ میں بینک سے نکل رہے تھے کہ کچھ ملزمان ان سے 3 لاکھ نقد لوٹ کر فرار ہوگئے تھے، ظہور احمد ان کے خلاف شکایت درج کروانے تھانے گئے لیکن واقعے کے 30 دن گزرنے کے بعد تک پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔
ظہور احمد نے ڈان کو بتایا کہ اس واقعے سے لے کر اب تک وہ ایک کڑی آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں، ملزمان کا سراغ لگانے اور گرفتار کرنے کے لیے کئی بار تھانوں کا رخ کیا، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پولیس افسران کے بدترین رویے کا سامنا کرنا پڑا جو انہیں گھنٹوں دفتر کے باہر بٹھا کر رکھتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک سال گزر جانے کے بعد بھی میرے کیس کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں کر رہا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس کیس میں بہت وقت اور پیسہ خرچ کیا۔
مزید پڑھیں: لاہور پولیس کا 10 ماہ میں 16 ہزار شکایات پر مقدمات درج کرنے سے گریز
بزرگ شہری ظہور احمد کا بیٹا نجی ادارے میں کام کرتا ہے، ’میرا بیٹا اب اس معاملے سے تنگ آگیا ہے، میرے بیٹے نے دفتر سے ایک مہینے کی چھٹی لی تھی تاکہ وہ ذاتی طور پر ملزمان کا سراغ لگا سکے‘۔
ظہور احمد نے کہا کہ ’میرا بیٹا لاہور کے مختلف تھانوں میں گیا، پولیس کو رشوت دی اور آخر کار شاہدرہ کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کے گروہ کا ریکارڈ اور اُن کا سُراغ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔‘
ظہور احمد نے کہا کہ انہوں نے لاہور پولیس کے سیف سٹی اتھارٹی اور کرائم ریکارڈ آفس برانچ کا بھی دورہ کیا اور کیس میں ملوث مطلوب ملزمان کی تصاویر حاصل کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ میں معلوم ہوا کہ ملزمان کے خلاف مختلف تھانوں میں 9 ایف آئی آرز پہلے سے درج ہیں، بعض مقدمات میں اس گینگ کے چند ملزمان ضمانت پر ہیں، ظہور احمد نے کہا کہ انہوں نے شاہدرہ بینک سے رقم لوٹ کر بھاگنے والے تمام ملزمان کو شناخت کرلیا تھا۔
مزید پڑھیں: سی سی پی او لاہور سمیت 3 پولیس افسران کی ترقی کا معاملہ غیر یقینی کا شکار
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملزمان کے کرائم ریکارڈ کے مطابق تمام ملزمان سنگھ پور کے رہائشی ہیں اور گروہ کی شکل میں شہریوں سے واردات کرتے ہیں‘۔
ظہور احمد نے بتایا کہ جب ان کے بیٹے نے ثبوت کے ساتھ اعلیٰ پولیس افسران کو تمام معاملہ بتایا تو افسران نے ہماری بات نہیں سنی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے بیٹے نے آخری بار کوشش کرکے کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے اعلیٰ پولیس افسر سے ملاقات کی اور انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا، پولیس افسر نے سی آئی اے پولیس کے انسپکٹر کو کیس میں ملوث ملزمان کا سراغ لگانے اور گرفتار کرنے کی ہدایت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کانسٹیبل ایک ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگیا، ملزم نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا۔
ظہور احمد نے دعویٰ کیا کہ سی آئی اے پولیس نے ملزم سے 3 لاکھ روپے میں سے صرف ایک لاکھ روپے برآمد کیے۔
ظہور احمد نے بتایا کہ اسی دوران ایک اور حیران کن انکشاف گجرپورہ پولیس اسٹیشن میں سامنے آیا جہاں پولیس نے میرے خلاف شاہدرہ کی ڈکیتی میں ملوث ملزمان کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا، انہوں نے اغوا کے جعلی مقدمے میں سی آئی اے پولیس کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: '2020 میں 279 غیرفطری اموات'، لاہور پولیس نے تحقیقات کا آغاز کردیا
ظہور احمد کا کہنا تھا کہ ’کچھ دنوں بعد سی آئی اے افسر نے ملزم کو شاہدرہ تفتیشی پولیس کے حوالے کردیا اور گینگ کے دیگر ملزمان کی گرفتاری سے انکار کیا۔
لاہور پولیس کے تفتیشی ونگ کے سرکاری جرائم کے اعدادوشمار ظہور احمد کے دعوے کی تائید کرتے ہیں، اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران شہر میں رپورٹ ہونے والے جرائم میں ملوث ملزمان کی سزا کی شرح میں کمی آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال کے دوران شہر کے 82 تھانوں میں ڈکیتی کے 10 ہزار 882 مقدمات درج ہوئے، ان میں سے ایک ہزار 559 کیسز کا سراغ اب تک نہیں مل سکا جبکہ 338 کیسز کی تفتیش نامکمل اور 4 ہزار 445 کیسز کی تفتیس جاری ہے۔
اسی طرح ڈکیتی کے 66 مقدمات میں سے 7 کیسز کا سراغ نہیں لگایا جا سکا، ان میں سے 17 کیسز نامکمل جبکہ 26 کیسز کی تفتیش جاری ہے۔