ہم مل کر موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے نمٹ سکتےہیں، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم مل کر نمٹ سکتے ہیں ورنہ آج ہم متاثر ہیں تو مستقبل میں کوئی اور بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
واشنگٹن میں ویلسن سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو کوئی بھی پاکستان سے واقف ہے، خاص طور پر پاکستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے انہیں معلوم ہو گا کہ ہم بہت مشکل حالات میں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم خاص طور پر کچھ ایسے فیصلوں کی وجہ سے متوازی معاشی صورت حال میں تھے جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی چند شرائط کی خلاف ورزی کی وجہ سے سخت فیصلے کیے گئے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسی صورت حال میں ہم نے آئی ایم ایف سے ایک اور توسیعی معاہدہ کیا، جس کی قسط مشکل سے اگست کے وسط تک پہنچی مگر ملکی معیشت کے حوالے سے تمام امیدیں اس تباہ کن سیلاب میں بہہ گئیں۔
مزید پڑھیں: توانائی کے شعبے میں ایران کے ساتھ تعاون مزید مضبوط کرنے کیلئے پرعزم ہیں، بلاول بھٹو
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں 0.8 فیصد حصہ ہے مگر پاکستان کے 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ اپنی زندگیوں، گھروں اور دیگر نقصانات کی صورت میں اس گلوبل کاربن کی قیمت ادا کر رہے ہیں جس میں ان کا کوئی کردار نہیں اور جس طرح اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ’یہ صرف عطیات اور چندے کی بات نہیں مگر معاشی انصاف کا سوال ہے‘۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے بارہا سنا کہ کس طرح امریکا، یورپی ممالک سمیت تمام عالمی قوتیں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑ رہی ہیں مگر وہ خود اس موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ کا ملک 100 کلومیٹر کی نہر میں تبدیل ہو جائے اور ملک کا بیشر حصہ زیر آب آجائے اور آپ کے پاس پیسے نہیں ہوں اور اس تباہی کا سامنا کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی انفراسٹرکچر کا کوئی نظام بھی نہیں ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اس سیلاب میں ہمارے لیے ایک موقع ہے اور اس پر پاکستان کا یہ پیغام ہے کہ ’آج ہم ہیں تو مستقبل میں کوئی اور بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: 'اپنے اتحادیوں کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے منا رہے ہیں'
انہوں نے کہا کہ اگر ہم مل کر مستقبل کے لیے منصوبہ سازی کریں اور مالیاتی اداروں کو شامل کرکے عالمی قوتوں سے بات کرکے ایک نیا مکینزم تیار کریں اور جو منصوبہ یا تیاری ہمارے پاس پہلے نہیں تھا اس کا سدباب کیا گیا تو پھر اگر مستقبل میں کسی اور ملک کو اس تباہی کا سامنا کرنا پڑا تو ہم پہلے سے زیادہ بہتر طور پر تیار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے پاس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور سیلاب زدہ علاقوں میں بڑی سرمایہ کاری کے لیے اتنے وسائل نہیں ہیں، ہمارے پاس دو راستے ہیں یا تو ہم ناقص اور غیرمعیاری اقدامات کرکے اگلے سیلاب میں بہہ جانے کا انتظار کریں یا پھر ہم ٹیسٹ کیس بنیں اور گرین انفراسٹرکچر کے لیے اقدامات کریں۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہماری سیاسی مصروفیات کچھ بھی ہوں مگر ہمیں حالات کی سنگینی کا ادراک کرنا ہوگا، سیلاب سے پہلے یہ ہمارے لیے مسئلہ تھا مگر ہم گرین انرجی، سولر انرجی اور ونڈ انرجی پر کام کر رہے تھے ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت اچھا ہے لیکن ہم نے پہلے کبھی اس قدر تباہ کن سیلاب نہیں دیکھا اور ہم نہیں چاہتے کہ جس طرح آج ہم اس تباہی کا سامنا کر رہے ہیں، مستقبل میں کوئی اور بھی اس سے دوچار ہو۔
مزید پڑھیں: وزیرخارجہ کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات، بلوچستان کے جنگلات میں آگ بجھانے میں مدد پر اظہار تشکر
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہماری ملکی سیاست بہت زیادہ تقسیم ہے مگر حالات کی سنگینی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس چیز کو سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات قابو سے باہر ہیں، 10 سب سے زیادہ آب و ہوا سے متاثرہ ممالک میں سے ایک پاکستان بھی ہے، جس کا کاربن کے اخراج میں تھوڑا سا حصہ ہے لیکن وہ فرنٹ لائن متاثرین میں شامل ہے۔
وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 3 کروڑ 30 لاکھ لوگوں کی ضروریات کو کوئی کیسے پورا کر سکتا ہے جو سری لنکا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔
مزید پڑھیں: پی ڈی ایم کے حکومت سے مذاکرات نہیں ہورہے، بلاول بھٹو زرداری
انہوں نے کہا کہ اگر چین اور امریکا موسمیاتی تبدیلی پر مل کر کام نہیں کریں گے تو ہم موسمیاتی تبدیلی پر قابو نہیں پا سکیں گے اور نہ ہی اپنے سیارے کو بچا سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر ہم اپنے ملک کے اندر مل کر کام کریں تو ہم ان چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جن کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں اور اگر ہم بین الاقوامی سطح پر مل کر کام کریں گے تو ہم ان درپیش چیلنجوں کا بھی سامنا کر سکتے ہیں لیکن اگر ہم مزید دیگر معاملات میں الجھے رہے تو ہمارے سیارے کا درجہ حرارت اتنا بڑھ جائے گا کہ ہم یہاں رہنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ آلودگی والے ممالک یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ اس تباہی پر قابو پانے میں اپنی صنعت کاری سے متاثر ہونے والوں کی مدد کریں گے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔