• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

مسلم دنیا کے معروف اسکالر شیخ یوسف القرضاوی انتقال کر گئے

شائع September 26, 2022
دنیا کے معروف عالم دین انتقال کر گئے —فوٹو: یوسف القرضاوی ٹوئٹر
دنیا کے معروف عالم دین انتقال کر گئے —فوٹو: یوسف القرضاوی ٹوئٹر

مصر سے تعلق رکھنے والے دنیا کے معروف مذہبی اسکالر اور اسلامی دنیا کے بااثرترین علمائے دین میں سے ایک شیخ یوسف القرضاوی انتقال کر گئے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق مصر سے تعلق رکھنے والے معروف مذہبی اسکالر 96 سالہ شیخ یوسف القرضاوی قطر میں مقیم تھے اور انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کے چیئرمین اور اخوان المسلمین کے روحانی قائد بھی تھے۔

عالمی اسکالر کے انتقال کا اعلان ان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کیا گیا اور دنیا بھر میں پھیلے ان کے پیروکاروں نے غم کا اظہار کیا۔

شیخ یوسف القرضاوی الجزیرہ عربی کے مذہبی پروگرام میں اظہار خیال کرتے تھے اور ایک معروف ٹی وی پروگرام ’شریعت اور زندگی‘ کی میزبانی بھی کیا کرتے تھے، جس میں انہیں دنیا بھر سے مسلمان مذہبی احکام کی تفہیم اور عالمی سیاست سے لے کر روزمرہ کے دنیاوی پہلوؤں تک ہر چیز پر مسائل پوچھتے تھے۔

مزید پڑھیں:قطر تنازع کے باوجود دہشتگردوں کی فہرست میں نئے نام شامل

مصر میں جب 2013 میں پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کو معزول کرکے ان کی حکومت پر عبدالفتح السیسی کی قیادت میں فوج نے قبضہ کیا تو شیخ یوسف القرضاوی نے اس پر سخت تنقید کی تھی۔

محمد مرسی صدر منتخب ہونے سے قبل اخوان المسلمین کے رکن تھے اور جب ان کی حکومت کو فوجی قبضے کے ذریعے ختم کیا گیا تو ان کی جماعت کی جانب سے ان کے حق میں مظاہرے کیے تھے، جس کی وجہ سے کارکنوں اور قائیدن پر تشدد بھی کیا گیا۔

شیخ یوسف القرضاوی کو محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد واپس مصر جانے کا موقع نہیں ملا کیونکہ وہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت کے مخالف تھے۔

عالمی مذہبی اسکالر اس سے قبل بھی صدر حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ کرنے والے 2011 کے انقلاب سے پہلے جلاوطن رہ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: معروف بھارتی مذہبی اسکالر مولانا وحیدالدین خان کا کورونا سے انتقال

مذہبی عالم کے انتقال پر پوری مسلم دنیا کے مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اخوان المسلمین کی بنیاد مصر میں رکھی گئی تھی مگر پورے خطے میں اس تنظیم کی شاخیں موجود تھیں، جس نے 2011 کی بغاوتوں میں نمایاں کردار ادا کیا اور مشرق وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس کی بنا پر خطے کے متعدد ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے تھے۔

شیخ یوسف القرضاوی کو مصر میں غیر حاضری پر موت کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔

الجزیرہ کے جمال الشیال نے کہا کہ مذہبی اسکالر نے 120 سے زیادہ کتابیں اور 50-60 سے زیادہ دیگر کتابچے بھی تحریر کیے جنہوں نے مسلم کمیونٹی کے ای وسیع حصے تک رسائی حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ شیخ یوسف القرضاوی یقیناً دنیا میں سب سے بڑے بااثر مسلم اسکالر تھے جو اس جدید دور میں شاید واحد مذہبی رہنما تھے جن کی تعلیمات کسی ایک مکتب فکر تک محدود نہیں تھیں۔

جمال الشیال نے کہا کہ یوسف القرضاوی جدید دنیا کے مسائل پر اکثر بات کیا کرتے تھے، جن میں انتخابات سے لے کر تعلقات اور جمہوریت سے سماجی انصاف تک تمام مسائل شامل تھے۔

شیخ یوسف القرضاوی 1926 میں پیدا ہوئے اور اس وقت مصر ابھی برطانیہ کی کالونی تھا اور انہوں نے جوانی کے دوران اپنی مذہبی تعلیمات کو برطانوی کی نو آبادیات کے خلاف جدوجہد سے جوڑ دیا۔

برطانوی قبضے کے خلاف جدوجہد کے دوران اور بعدازاں اخوان المسلمین سے منسلک ہونے کی وجہ سے 1950 کی دہائی میں انہیں متعدد بار گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: 5 ماہ سے جیل میں قید امام مسجدِ نبوی انتقال کرگئے

بعد ازاں وہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں قطر چلے گئے جہاں انہیں قطر یونیورسٹی میں فیکلٹی آف شریعہ کا ڈین مقرر کیا گیا اور بعد میں انہیں قطری شہریت بھی دی گئی تھی۔

دوحہ بین الاقوامی مرکز برائے بین المذاہب ڈائیلاگ کے چیئرمین ابراہیم صلاح النعائمی نے یوسف القرضاوی کو عظیم مذہبی اسکالر قرار دیا ہے۔

ابراہیم صلاح النعائمی نے الجزیرہ کو بتایا کہ 'مذہبی ہم آہنگی قائم کرنے اور نفرت انگیز تقاریر روکنے کے لیے یوسف القرضاوی نے مختلف عقائد کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کیا'۔

ان کی ابتدائی مشہور کتابوں میں سے ایک 1973 میں شائع ہونے والی کتاب فقہ الزکوٰۃ (فقہ زکوٰۃ) ہے، انہوں نے مسلمانوں کو غیر مسلم معاشروں میں بہتر طور پر مربوط کرنے کے لیے اسلامی قوانین کے تاریخی اصولوں کی دوبارہ تشریح کرنے کی بھی کوششیں کی۔

مزید پڑھیں: مولانا سمیع الحق کے قتل پر افغان طالبان کا رد عمل

دوسرا انتفاضہ کے دوران انہوں نے اسرائیل کے خلاف خودکش بم دھماکوں کی حمایت کی تھی، اس کے علاوہ انہوں نے 2003 میں امریکی مداخلت کے بعد عراق کے صدر صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد پیدا ہونے والی عراقی بغاوت کے حق میں بھی آواز بلند کی تھی۔

دونوں مسائل پر ان کے مؤقف کی وجہ سے انہیں مغرب میں طویل عرصے تک ان کی مخالفت پائی جاتی تھی۔

یوسف القرضاوی پر 2009 میں اسرائیل کی سیکورٹی ایجنسی شن بیت نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے یروشلم میں جنگجو پیدا کرنے کے لیے حماس کے قائم کردہ فلاحی ادارے کو 21 ملین ڈالر کے عطیات دیے تھے، تاہم حماس نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024