کے ایم سی ٹیکس وصولی: مرتضیٰ وہاب نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا
حکومت سندھ کے ترجمان اور مشیر مرتضیٰ وہاب نے ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
مرتضیٰ وہاب نے اپنا استعفیٰ منظوری کے لیے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو ارسال کردیا، جس میں انہوں نے کہا کہ میں ذاتی وجوہات کی وجہ سے کے ایم سی کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر خدمات مزید جاری نہیں رکھ پاؤں گا۔
یہ بھی پڑھیں: کے-الیکٹرک کو بلوں میں میونسپل ٹیکس کی وصولی سے روک دیا گیا
انہوں نے کہا کہ میں ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں اور برائے مہربانی مجھے ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے لوکل گورنمنٹ کے محمکمے کو ہدایت جاری کریں۔
ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرنے کا موقع فراہم کرنے پر صوبائی حکومت اور اپنی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے دور میں شہر اورکے ایم سی کے مسائل حل کرنے کی اپنی طرف سے بہترین کوشش کی۔
مرتضیٰ وہاب سے اس قبل کراچی میں پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز (ایم یو سی ٹی) کی کے-الیکٹرک کے ذریعے وصولی کے فیصلے کی ذمہ داری لیتا ہوں اور عدالتی فیصلے کے بعد بطور ایڈمنسٹریٹر کام نہیں کرسکتا، اس لیے باضابطہ طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔
پریس کانفرنس کے دوران مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ میرے لیے سب سے آسان تھا حکومت سے شہر کے لیے فنڈز جاری کرنے کی اپیل کرتا لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ جس شہر کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ یہ ملک چلاتا ہے اس کو خود مختار بناؤں۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ یہ کیسے ہوتا ہے اس شہر کا بلدیاتی اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کرسکتا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتا، میں اس شہر کو، اس کے محکموں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق چلنا ہی ہمارے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، ہر مسئلے اور معاملہ کا حل آئین و قانون میں موجود ہے، قانون کے ایم سی کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ شہریوں پر ٹیکس عائد کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بارش کے دوران سڑکوں پر پانی کھڑا ہوتا ہے تو مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پانی کیوں کھڑا ہے، جب ریونیو ہوگا تو شہر کی بہتری کے لیے خرچ کیا جائےگا، پوچھا جاتا ہے کہ حکومت کا کام ہے تو کام کیوں نہیں کر رہی اور جب حکومت کام کرتی ہے تو روک دیا جاتا ہے۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ ایم یو سی ٹی ٹیکس گزشتہ 15 سال سے نافذ ہے، وسیم اختر کے دور میں بھی یہ ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا، کے ایم سی کا ٹارگٹ ایک ارب روپے جمع کرنا تھا جب کہ محکمہ جمع صرف 21 کروڑ روپے جمع کرتا تھا، ملک چلانے والے شہر کا بلدیہ عظمیٰ کراچی 20 فیصد ریکوری کرتی تھی وہ پیسا کہاں جاتا تھا، وسیم اختر کے دور میں معاہدے کے تحت صرف 16 کروڑ روپے کے ایم سی کے اکاؤنٹ میں آتے تھے، کیا اس رقم سے شہر چل سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے غلطی یہ کی کہ میں نے جیب سے محبت نہیں کی، میں نے کے ایم سی سے محبت کی، میں نے ٹیکس کو خرد برد سے بچانے کے لیے کے الیکٹرک کے ذریعے ٹیکس وصولی کا فیصلہ کیا، قانون کسی بھی کمپنی کے ذریعے ٹیکس وصولی کی اجازت دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: کے الیکٹرک بلوں میں کے ایم سی چارجز کی وصولی کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست
ان کا کہنا تھا کہ میں نے پرائیویٹ لین دین روکنے کے لیے سرکار کے ذریعے یہ کام کرنے کا فیصلہ کیا، کے الیکٹرک ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی ہے، اس کی بیلنس شیٹ پبلک ہوتی ہے، اس کے اکاؤنٹ میں اگر 100 روپے بھی آئیں تو اس کا آڈٹ ہوتا ہے، ہر شہری چیک کرسکتا ہے کہ کتنے پیسے آئے، کتنے نہیں آئے اور جہاں خرد برد ہوگی وہاں ایس ای سی پی اور نیپرا سے بات کی جائے گی اور پیسے جمع کرکے کے ایم سی کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا یہ معاہدہ ایک سال کی جہد وجہد اور تگ و دو کے بعد کیا گیا، اس دوران سندھ کی آئینی حکومت نے رولز کے مطابق اس کی منظوری دی، اس معاہدے کے تحت 16 کروڑ کے بجائے سوا تین ارب روپے جمع ہوں گے جو شہر کا میئر اس کی ترقی کے لیے خرچ کرسکے گا اور شہری اس کے بارے میں سوال کرسکیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارا کے الیکٹرک کے ساتھ معاہدہ ہوا کہ جتنا پیسہ بھی میونسپل ٹیکس کی مد میں اکٹھا ہو گا وہ آپ ہمیں دیں گے لیکن شاید کچھ لوگوں کو یہ چیز پسند نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مصطفیٰ کمال کے دور میں یہ ٹیکس 200 روپے سے شروع ہو کر 5 ہزار روپے تک تھا، وسیم اختر کے دور میں بھی یہ ٹیکس 5 ہزار روپے تھا، میں اس ٹیکس کو کم کرکے 50 روپے سے 200 روپے تک کیا لیکن شہر کی آمدنی بڑھادی، کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ اس شہر کے اداروں کے پاس پیسے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں پیسے کسی کی جیب میں جاتے تھے، کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ شہر کے اندر پائیدار ترقی ہو، کچھ لوگوں کو اچھا نہیں لگتا کہ اب کے ایم سی کا دفتر فعال ہے اور دیگر محکموں سے سوال کرتا ہے کہ کیا کام کر رہے ہو۔
مزید پڑھیں: کراچی: بجلی کے بلوں میں 'متنازع' کے ایم سی ٹیکس کی وصولی شروع
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ایک سال کی محنت کے بعد ٹیکس جمع ہونا شروع ہوتا ہے تو 50 لوگ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، کچرا پھینکتے ہیں، اس کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں وہ لوگوں کو مس گائیڈ کرتے ہیں، میں نے عدالت کو بتایا کہ قانون اس ٹیکس کی اجازت دیتا ہے، کہا گیا کہ قانون ٹھیک ہے لیکن کے الیکٹرک کے ذریعے وصول نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا میں حکومتوں کو مشورہ دوں گا کہ کوئی بھی قانون سازی کرنے سے قبل تمام جماعتوں سے مشورہ کرلیا کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ محنت کریں اور جب اس کا پھل آنا شروع ہو تو آپ کو کام کرنے سےروک دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ یہ ٹیکس کراچی شہر اور اس کے عوام کی بہتری کے لیے تھا، میں نے شہر کو اس کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی، شہر کی بہتری کے لیے دن رات کام کیا، کورونا ہوا، اس دوران بھی صرف 2 روز آرام کیا اور پھر کام کرنا شروع کردیا، 15 ستمبر کو بارش ہوئی، 16 ستمبر کو ہم فیلڈ میں تھے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ بحیثیت ایڈمنسٹریٹر میں اس فیصلے کی ذمے داری لیتا ہوں، وہ فیصلہ شہر کے لیے بہت اچھا تھا اور آج چونکہ عدالت نے کے ایم سی کوایم یو سی ٹی کے الیکٹرک کے ذٓریعے اکھٹا کرنے سے روک دیا ہے، میں اخلاقیات والا شخص ہوں اور میری اخلاقیات اب مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں بحیثیت ایڈمنسٹریٹر کراچی اپنی خدمات جاری رکھوں اور آج میں باضابطہ طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اس عہدے پر اب مزید کام نہیں کرسکتا، میں عدالت کے فیصلوں کا احترام کرتا ہوں، کے ایم سی اب ٹیکس خود اکھٹا کرے گی، یعنی کہ اب یہ پیسا کسی کی جیب میں جائےگا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب میرے لیے ممکن نہیں ہے کہ اس عہدے پر کام جاری رکھوں۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ میں ابھی اس پریس کانفرنس کے بعد اپنا استعفیٰ وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کردوں گا، پھر کوئی شخص آئے اور کام کرے اور ہم کہتے رہیں کہ شہر کا برا حال ہو رہا ہے، نیک نیتی کا کوئی فائدہ نہیں ہے، چیزوں کو بہتر بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں