حکومتی اراکین کی مزید ’آڈیو کلپس‘ لیک، دفتر وزیراعظم کی سیکیورٹی پر پی ٹی آئی کے سوالات
وزیراعظم کی مبینہ آڈیو لیک کے بعد حکمراں اتحاد کے رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل مزید مبینہ آڈیو کلپس منظر عام پر آگئیں، خدشات ہیں کہ وزیراعظم کے دفتر سے ڈیٹا 'ہیک' کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ صرف ایک روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف اور ایک سرکاری افسر کے درمیان مبینہ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کی جانب سے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے دو منٹ سے زیادہ طویل آڈیو کلپ میں مبینہ طور پر وزیر اعظم کی آواز کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ مریم نواز شریف نے ان سے اپنے داماد کو بھارت سے پاور پلانٹ کے لیے مشینری کی درآمد میں سہولت فراہم کرنے کا کہا۔
یہ بھی پڑھیں: مبینہ آڈیو میں وزیر اعظم سے رشتہ دار کو 'سہولت' فراہم کرنے کی درخواست کا انکشاف
جو کلپس جو آج منظر عام پر آئیں، انہیں پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں نے ٹوئٹر پر شیئر کیا، ان میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں سے متعلق گفتگو کی گئی تھی۔
پہلے کلپ میں مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم اور وزیر اعظم کے درمیان مفتاح اسمٰعیل کے بارے میں ہونے والی گفتگو سنی گئی، جنہیں مبینہ طور پر معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سخت معاشی اقدامات کرنے پر پارٹی کے اندر سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے سرِ عام کہا تھا کہ وہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے سے متفق نہیں اور ان کی پارٹی حکومت میں ہو یا نہیں وہ اس طرح کے فیصلوں کو قبول نہیں کرتیں۔
مزید پڑھیں: شوکت ترین کی ’آڈیو لیک‘ میں کوئی غلط بات نہیں ہے، اسد عمر
مبینہ کلپ میں مریم نواز نے وزیر خزانہ کے بارے میں کہا کہ 'اسے پتا نہیں کہ یہ کر کیا رہا ہے، اس نے بہت مایوس کیا، اس کی شکایتیں ہر جگہ سے آتی رہتی ہیں، وہ ذمہ داری نہیں لیتا، ٹی وی پر الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں'۔
ساتھ ہی مذکورہ کلپ میں مریم نواز نے سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے واپس آنے کی بھی خواہش کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار آئندہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کو معاشی محاذ پر سہولت فراہم کرنے کے لیے وطن واپس آنے والے ہیں۔
دوسرا کلپ مبینہ طور پر وزیر اعظم، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے درمیان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو سے متعلق ہے۔
پی ٹی آئی کے دفتر وزیراعظم کی سیکیورٹی پر سوالات
ایسے میں کہ جب حکومت اس معاملے پر اپنی خاموشی برقرار رکھے ہوئے ہے، پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے دفتر وزیراعظم کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھائے گئے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ جس طرح سے دفتر وزیر اعظم ڈیٹا کو ڈارک ویب پر فروخت کے لیے پیش کیا گیا اس سے ملک کی سائبر سیکیورٹی کی حالت ظاہر ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں خصوصاً آئی بی کی بہت بڑی ناکامی ہے، ظاہر ہے سیاسی معاملات کے علاوہ سیکیورٹی اور خارجہ موضوعات پر بھی اہم گفتگو اب سب کی دسترس میں ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا شوکت ترین اور تیمور جھگڑا کی آڈیو ٹیپ کے فارنزک آڈٹ کا فیصلہ
چند روز قبل ایک آڈیو لیک تنازع کا مرکز بننے والے خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر تیمور خان جھگڑا نے کہا کہ دفتر وزیر اعظم سے 8 جی بی کا ڈیٹا لیک ہوا ہے، قطع نظر اس کے کہ کون بول رہا ہے یہ ریکارڈنگ کا مکروہ کلچر شرمناک ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا کوئی جواب دے گا کہ کس قانون کے تحت اور کون سیاسی قیادت کی بات چیت کو ٹیپ کر رہا ہے، چاہے وزیراعظم کے دفتر میں ہو یا فون پر؟ 'اور اس ڈیٹا کی حفاظت کے لیے کون جوابدہ ہے؟'
انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ ایک مبینہ آڈیو میں اسحٰق ڈار کی واپسی کے لیے میدان سجایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیک ہونے والی آڈیوز یقینی طور پر اس 'امپورٹڈ' حکومت کو چلانے میں مجرم نواز شریف اور ان کی ضمانت پر رہا بیٹی کے اثر و رسوخ کو ظاہر کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'اصل مسئلہ' یہ ہے کہ سب سے پہلے دفتر وزیر اعظم یا وزیر اعظم ہاؤس میں جاسوسی کس نے کی۔
شیریں مزاری نے مزید کہا کہ ہیکنگ اس لیے ہوئی کیونکہ آلات ان مقامات پر رکھے گئے تھے، تو ذمہ دار کون ہے اور احکامات یا فیصلہ کہاں سے آیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بھی توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔