70 سال پہلے انگلش ٹیم کی کراچی آمد اور قومی ٹیم کو آئی سی سی رکنیت ملنے کا تاریخی واقعہ
تقسیمِ ہند اور قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی غیر ملکی کرکٹ ٹیموں نے نوزائیدہ ملک پاکستان کے دورے شروع کردیے تھے۔ ویسے بھی لاہور اور کراچی قیامِ پاکستان سے قبل بھی کرکٹ کا گہوارہ تھے۔ پنجاب اور سندھ میں کھیل کی مقبولیت بھی تھی۔ انہی وجوہات کی بنا پر جو بھی ٹیم بھارت کا دورہ کرتی وہ پاکستان کا بھی مختصر دورہ ضرور کرتی تھی۔
پاکستان جیسے ایک نئے ملک کے لیے یہ ضروری تھا کہ کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی ٹیموں کی میزبانی کرے۔ 1948ء میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے یہاں کا دورہ کیا اور اس کے بعد سیلون (موجودہ سری لنکا) اور پھر دولتِ مشترکہ کی ٹیمیں بھی پاکستان آئیں۔
بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے کھلاڑی اور مقامی کھلاڑی ان ٹیموں کے خلاف کھیلتے تھے۔ ان میچوں میں 3 روزہ میچ اور ان آفیشل ٹیسٹ میچ شامل ہوتے تھے۔ وہ ٹیسٹ ان آفیشل اس وجہ سے ہوتے تھے کہ اس وقت تک پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ کانفرنس جو اب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ہے کی مکمل رکنیت نہیں ملی تھی۔
یہ صورتحال زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہی اور قیامِ پاکستان کے 5 سال کے اندر ہی پاکستان کو آئی سی سی کی مکمل رکنیت دے دی گئی۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ 1951ء میں پاکستان آنے والی ایم سی سی کی ٹیم کو پاکستانی ٹیم نے عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں کراچی میں کھیلے گئے ان آفیشل ٹیسٹ میں 4 وکٹوں سے شکست دی اور اس طرح 52ء-1951ء میں پاکستان کو آئی سی سی کی مکمل رکنیت حاصل ہوئی۔
اس کے بعد 1952ء میں پاکستانی ٹیم نے ایک فُل ممبر کی حیثیت سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی ٹیم کے درجے کے ساتھ بھارت سے بھارت کی ہی سرزمین پر پہلی آفیشل ٹیسٹ سیریز کھیلی۔
چونکہ اِن دنوں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے تو اس وجہ سے نوجوان نسل کو اس اہم واقعے سے آگاہ کرنا چاہیے کہ انگلینڈ سے آنے والی ایم سی سی ٹیم کو شکست دینے کے بعد ہی پاکستان کو آئی سی سی کی مکمل رکنیت ملی۔ یہاں یہ بات بھی بتادوں کہ بھارت کو آئی سی سی کی رکنیت 1932ء میں ہی مل چکی تھی۔
52ء-1951ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والی ایم سی سی ٹیم کی قیادت نائیجل ہاؤورڈ کررہے تھے۔ بھارت میں 5 ٹیسٹ میچوں کی سیریز 1-1 سے برابر کرنے کے بعد اس ٹیم نے سیلون کا دورہ کیا تھا اور اس کے بعد 2 ٹیسٹ اور 2 سائیڈ میچ کھیلنے کے لیے یہ ٹیم پاکستان آئی تھی۔
پنجاب سے اس ٹیم کا میچ برابر رہا اور پھر لاہور میں کھیلا جانے والا ان آفیشل مقابلہ بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا۔ ایم سی سی کی طرف سے باغِ جناح میں کھیلے جانے والے میچ میں ٹام گریوینی جو ووسٹرشائر اور انگلینڈ کے مشہور بیٹسمین تھے، انہوں نے 109 رن بنائے تھے۔ اسی طرح پاکستان کی جانب سے مقصود احمد نے 137، غزالی نے 86، عبدالحفیظ کاردار نے 48 اور 17 سالہ حنیف محمد نے 26 رن بنائے۔ اس میچ میں ایم سی سی کی ٹیم میں گریوینی، اسپونر، رابرٹسن، واٹکنس اور برائن اسٹاٹھم جیسے کہنہ مشق کھلاڑی تھے اور دوسری جانب پاکستان کی ناتجربہ کار ٹیم لیکن پھر بھی مقابلہ سخت رہا۔
بہاولپور اور کراچی کی مشترکہ ٹیم کا ایم سی سی ٹیم کے ساتھ میچ بھی برابر رہا۔ پھر جب ایم سی سی کی ٹیم کراچی کے تاریخی میدان میں قومی ٹیم کے خلاف اتری تو پاکستانی ٹیم کی قسمت چمک اٹھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میچ میں ایم سی سی کی ٹیم کو پاکستان جیسی ناتجربہ کار ٹیم کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان کی یہ کامیابی تاریخی ثابت ہوئی اور اس کامیابی نے خود ایم سی سی ٹیم اور دنیائے کرکٹ کو بہت متاثر کیا کہ ایک نئی اور ناتجربہ کار ٹیم نے انگلینڈ جیسی تجربہ کار ٹیم کو شکست دی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کہ پاکستان نے دنیا کی بڑی ٹیموں میں اپنا مقام حاصل کرلیا ہے۔
کراچی کا یہ تاریخ ساز میچ اور شاندار فتح 1951ء میں ہزاروں تماشائیوں نے دیکھا۔ یہ میچ میٹنگ وکٹ پر کھیلا گیا تھا۔ میں اس وقت اسکول کا طالب علم تھا۔ میں نے صرف 3 گھنٹے یہ میچ دیکھا جس میں وہ تاریخی فتح بھی شامل تھی۔
ایم سی سی کی ٹیم کو پاکستان نے پہلی اننگ میں 123 رن پر آؤٹ کردیا تھا۔ اس کا سہرا پاکستانی باؤلر فضل محمود کے سر تھا جنہوں نے 40 رن دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں۔ اس طرح خان محمد نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔ جواباً پاکستانی ٹیم 130 بنا کر آؤٹ ہوگئی جس میں امتیاز احمد 43 رنز بناکر نمایاں رہے۔
دوسری اننگ میں ٹام گریوینی کی 123 رنز کی اننگ نے ایم سی سی کو 284 رن کی برتری اور پاکستان کو میچ جیتنے کے لیے ہدف فراہم دیا۔ اس ہدف کو دیکھ کر بظاہر تو پاکستان کی جیت کے امکان کم ہی تھے، مگر حیران کن طور پر قومی ٹیم نے یہ میچ 6 وکٹیں سے جیت لیا۔
اس کامیابی کا سہرا جواں سال اوپنر حنیف محمد کے سر جاتا ہے جنہوں نے بہت اعتماد کے ساتھ 64 رنز بنائے۔ اس کے علاوہ پاکستانی کپتان عبدالحفیظ کاردار نے 50 رن بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، خاص طور پر اس وقت جب لنکا شائر اور انگلینڈ کے فاسٹ باؤلر برائن اسٹاٹھم اور سرے کاؤنٹی کے شیکلٹن باؤلنگ کروارہے ہوں۔
قومی ٹیم کی اس فتح کو دیکھنے کے لیے پاکستان کے وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین، وزیرِ کھیل عبدالستار پیرزادہ اور دیگر عمائدین بھی موجود تھے۔
یہ فتح ایک تاریخی کارنامہ یوں بھی تھی کہ ایک تو نئی اور نسبتاً کم تجربہ کار ٹیم نے انگلینڈ جیسی ٹیم کو شکست دے کر اپنا لوہا منوالیا تھا اور پھر اس فتح نے پاکستان کے لیے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھول دیے۔
تبصرے (1) بند ہیں