• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

وزیراعظم الیکشن کا وعدہ کریں تو پارلیمنٹ میں واپس جانے کا آپشن موجود ہے، اسد قیصر

شائع September 23, 2022
اسد قیصر نے کہا کہ موجودہ حکومت بہت کمزور، بہت مجبور ہے، اس کے پاس فیصلوں کا مینڈیٹ نہیں— فوٹو: ڈان نیوز
اسد قیصر نے کہا کہ موجودہ حکومت بہت کمزور، بہت مجبور ہے، اس کے پاس فیصلوں کا مینڈیٹ نہیں— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں واپس جانے کا آپشن موجود ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'لائیو ود عادل شاہزیب' میں گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ یہ حکومت ناجائز اور امپورٹڈ ہے، اس کے بارے میں ہمارا مؤقف واضح ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بہت کمزور حکومت ہے، یہ کئی جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے جسے ہر معاملے پر مشاورت کرنی پڑتی ہے اور خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے، معاشی صورتحال خراب ہے، سیلاب کی وجہ سے مشکل حالات کا سامنا ہے، ان مسائل سے کوئی کمزور حکومت نمٹ نہیں سکتی، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ نئے مینڈیٹ کے لیے انتخابات کی جانب بڑھنا چاہیے، عوام سے رجوع کرنا چاہیے اور جسے بھی مینڈیٹ ملے اسے عوامی مسائل کے حل کے لیے حکومت بنانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات: اسد قیصر کا ایف آئی اے انکوائری کےخلاف عدالت سے رجوع

ان کا کہنا تھا کہ اب سننے میں آرہا ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کی جگہ مفرور اسحٰق ڈار کو وزیر خزانہ بنایا جارہا ہے، ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ نئے انتخابات نہ ہوں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے قومی اسمبلی میں واپس جانے سے متعلق سوچ بچار کی ہے تو سابق اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس بارے میں ابھی تک حتمی فیصلہ اور تبادلہ خیال نہیں کیا گیا، ہم صرف سمجھتے ہیں کہ اس وقت اس حکومت کا وقت ختم ہوچکا ہے، اس حکومت کا مزید اقتدار میں رہنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے سوال اٹھایا کہ آج کل جو بجلی کے بل متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عام آدمی کو موصول ہو رہے ہیں، کیا وہ اسے ادا کرسکتے ہیں، مہنگائی کی صورتحال، اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے باعث غریب آدمی کی زندگی تنگ ہو رہی ہے، ان مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت بہت کمزور ہے، بہت مجبور ہے، ان کے پاس فیصلے کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

اسد قیصر نے کہا کہ اس حکومت کے اندر حالات کو سدھارنے کی صلاحیت نہیں ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے باوجود ڈالر اوپر جارہا ہے، روپیہ تنزلی کی جانب جارہا ہے، دنیا میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں اور آپ یہاں قیمتیں بڑھا رہے ہیں، بےروزگاری بڑھ رہی ہے، کسان رو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر حکومت مذاکرات کے لیے رضا مندی ظاہر کرے اور کہے ہم پارلیمان کے فورم پر بات چیت کے لیے تیار ہیں تو کیا آپ پارلیمنٹ میں واپس جاسکتے ہیں، اسد قیصر نے جواب دیا کہ دیکھیں بالکل یہ آپشن موجود ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ بات وزیر اعظم خود کہیں، الیکشن کے لیے ایک تاریخ کا وعدہ کریں اور بتائیں کہ اس کا فریم ورک کیا ہوگا، اس کے بعد اگر اس سلسلے میں کوئی قانون سازی کرنی ہو، کسی بل میں کوئی ترمیم و تبدیلی کرنی ہو، اس پر ہم سوچ سکتے ہیں، اس پر کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی نکتہ نظر عمران خان کا بھی ہے، میں جو کہہ رہا ہوں وہ پارٹی پالیسی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ سب سے پہلے الیکشن کا اعلان کریں، ہمارے ساتھ طے کریں کہ الیکشن کب ہوں گے، اسمبلیاں کب تحلیل ہوں گی، اس کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم صاف شفاف انتخابات کے لیے کچھ انتخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، قانون سازی کرنا چاہتے ہیں، ہم اس کے لیے تیار ہیں، ہم اسمبلی میں اس کے لیے بالکل تیار ہیںِ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ عمل بہت طویل نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع

انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن موجود ہے، اس پر پارٹی میں مشاورت جاری ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ استعفے دے دیے جائیں جبکہ کچھ سمجھتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام اس حکومت سے پریشان ہیں جبکہ حکمراں اپنے اللوں تللوں میں لگے ہوئے ہیں، تمام پارٹیاں حکومت میں ہیں، وزارتوں کے مزے لے رہی ہیں، ان کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے، سندھ میں سیلاب کے باعث بری صورتحال ہے لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے اس لیے آئندہ انتخابات ان حکمرانوں کے خلاف ریفرنڈم ثابت ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024