توہین عدالت کیس: عمران خان خاتون جج سے معافی مانگنے کو تیار، فرد جرم کی کارروائی مؤخر
سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر خاتون جج کے پاس جاکر معافی مانگنے پر رضامندی ظاہر کردی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کے خلاف فرد جرم کی کارروائی مؤخر کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
8 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت عالیہ نے آج 22 ستمبر کو عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آج ہونے والی سماعت کے آغاز میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت عدالت نے عمران خان کو روسٹرم پر طلب کیا۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس، عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے سماعت کل ہوگی
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو کہا کہ حامد خان صاحب آپ بیٹھ جائیں، آج ہم نے عمران خان پر فرد جرم عائد کرنی ہے جس پر حامد خان نے کہا کہ عمران خان کچھ بات کرنا چاہتے ہیں، اجازت دی جائے۔
اس پر عدالت نے بات کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ جی عمران خان بات کریں، عمران خان نے کہا کہ میں بات کرنا چاہتا تھا لیکن گزشتہ سماعت پر بات کرنے نہیں دی گئی، میں خاتون جج کے پاس جاکر معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں، اگر میں نے کوئی ریڈ لائن کراس کی تو اس پر بھی معذرت خواہ ہوں۔
عمران خان کی جانب سے معافی کے لیے رضامندی ظاہر کیے جانے کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے لیے توہین عدالت کارروائی کرنا مناسب نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی روک رہی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس، 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل
عمران خان نے دوران سماعت کہا کہ میرے علاوہ کوئی یہ بات نہیں کرتا، عدالت کو لگتا ہے کہ میں نے اپنی حد پار کی، خاتون جج کو دھمکانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ عمران خان ایک ہفتے کے اندر بیان حلفی جمع کرا دیں، خاتون جج کے پاس جانا یا نہ جانا آپ کا ذاتی فیصلہ ہوگا، اگر آپ کو غلطی کا احساس ہوگیا اور معافی کے لیے تیار ہیں تو یہ کافی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اگر عدالت کہے تو میں خاتون جج کے سامنے جاکر معافی مانگنے کو تیار ہوں، یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت آپ کا بیان ریکارڈ کر لے گی، عمران خان نے کہا کہ کیا بیان حلفی کے علاوہ عدالت کو مطمئن کرنے کا کوئی آپشن موجود ہے؟ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نہیں، آپ کو بیان حلفی جمع کرانا ہوگا، آپ نے جو کہا اس کا ایک بیان حلفی جمع کرائیں، جو کچھ آپ نے کہا اس عدالت نے آپ کو کہنے کا نہیں کہا تھا۔
اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو حلف نامہ جمع کرانے کے لیے 29 ستمبر تک کی مہلت دی اور کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا شوکاز نوٹس ارسال
عدلیہ سے جنگ نہیں لڑنی، عمران خان
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میں مافیاؤں کے خلاف حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہوں اور مجھے جس سے جنگ نہیں لڑنی، وہ پاکستان کی عدلیہ ہے۔
سماعت سے قبل عدالت پہنچنے پر ایک صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ کیا آپ عدالت سے معافی مانگیں گے جس پر عمران خان نے کہا دیکھیں گے۔
ایک صحافی نے دوبارہ پوچھا کہ کیا آپ مشروط یا غیر مشروط معافی مانگیں گے جس پر سابق وزیر اعظم نے جواب دیا کہ آپ کو پتا چل جائے گا۔
صحافی نے چیئرمین پی ٹی آئی سے یہ بھی پوچھا کہ آپ کی عدالتوں سے جان کب چھوٹے گی جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی تو نہیں چھوٹنے لگی۔
فرد جرم کی کارروائی کے لیے سرکلر جاری
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی عدالت میں پیشی سے متعلق ضابطہ اخلاق کا سرکلر گزشتہ روز جاری کیا تھا۔
سرکلرمیں بتایا گیا تھا کہ لارجر بینچ 22 ستمبر (کل) دوپہر ڈھائی بجے کیس کی سماعت کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ
سرکلر کے مطابق کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخلہ رجسٹرار آفس کے جاری کردہ پاس سے مشروط ہوگا۔
سرکلر میں مزید کہا گیا کہ عمران خان کی قانونی ٹیم کے 15 وکلا کمرہ عدالت میں موجود رہ سکیں گے۔
سرکلر کے مطابق اٹارنی جنرل آفس اور ایڈووکیٹ جنرل آفس کے 15 قانونی افسران کو عدالت میں جانے کی اجازت ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ 3 عدالتی معاونین کو بھی جانے کی اجازت ہوگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری سرکلر میں مزید بتایا گیا کہ 15 کورٹ رپورٹرز کی کمرہ عدالت میں موجودگی کی اجازت ہوگی۔
مزید پڑھیں: خاتون جج کو دھمکانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عمران خان کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا جواب
سرکلر کے مطابق ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ بار کے 5،5 وکلا کو بھی عدالت میں سماعت کے دوران بیٹھنے کی اجازت ہوگی۔
کمرہ عدالت میں آنے والوں کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا رجسٹرار آفس پاس جاری کرے گا۔
سرکلر میں بتایا گیا کہ عدالتی ڈیکورم کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس سیکیورٹی انتظامات کرے گی۔
خیال رہے کہ 8 ستمبر 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے سماعت کے بعد متفقہ فیصلہ سنایا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ ‘وکیل صفائی، اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کو سنا اور وکیل نے دوبارہ جمع کرائے گئے جواب سے آگاہ کیا، جو توہین عدالت کی کارروائی شروع ہونے کا باعث بننے والی تقریر کی وضاحت تھی’۔
حکم نامے میں نہال ہاشمی اور فردوس عاشق اعوان سمیت مختلف مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ‘جواب کو اطمینان بخش نہیں پایا گیا، ہم اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ جواب میں مبینہ طور پر ان کے خلاف توہین سے متعلق جاری شوکاز نوٹس پر صفائی پیش کی’۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے فیصلے میں کہا تھا کہ ‘فرد جرم عائد کرنے کے لیے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کی جاتی ہے اور سماعت مقررہ تاریخ پر دوپہر 2:30 بجے ہوگی’۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل
اس سے قبل عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ کرمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے، جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے جبکہ دو عدالتی معاونین نے بھی کیس ختم کرنے کی استدعا کی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی جانب سے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر توہین عدالت کے کیس میں 8 ستمبر تک عمران خان کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
31 اگست کو دیے گئے عدالت کے حکم کے مطابق سابق وزیر اعظم نے 7 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ نیا تحریری جواب جمع کرا دیا تھا۔
عمران خان کی جانب سے 7 ستمبر کو دوبارہ جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ غیر ارادی طور پر بولے گئے الفاظ پر افسوس ہے، بیان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا، اگر خاتون جج کی دل آزاری ہوئی تو اس پر افسوس ہے۔
مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: عمران خان کو 7 روز میں دوبارہ تحریری جواب جمع کروانے کا حکم
سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ اپنے الفاظ پر جج زیبا چوہدری سے پچھتاوے کا اظہار کرنے سے شرمندگی نہیں ہوگی، عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیان کا سوچ بھی نہیں سکتا، تقریر کے دوران لفظ 'شرمناک' توہین کے لیے استعمال نہیں کیا، میرے الفاظ سے جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح ہوئے، اس پر گہرا افسوس ہے، غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے۔
انہوں نے اپنے جواب میں عدالت عالیہ سے وضاحت کو منظور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔
31 اگست کو چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔
گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا تھا کہ جو جواب پڑھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی، مجھے توقع تھی کہا جائے گا غلطی ہوئی ہے۔
عمران خان کے خلاف مقدمہ
خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: خاتون مجسٹریٹ، آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس کریں گے، عمران خان
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔
ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔
اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔