چین، تائیوان کے ساتھ پُرامن طریقے سے 'دوبارہ اتحاد' کی کوششوں پر تیار
چین پرُامن طریقے سے تائیوان کے ساتھ ‘دوبارہ اتحاد’ کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرنے پر تیار ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق چین جمہوری طریقے سے چلنے والے تائیون کو اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، تائیوان کی حکومت چین کے اس دعوے کو مسترد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ جزیرے کے لوگ ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائپے کے بعد اہم بین الاقوامی جہاز رانی کے راستوں کو گھیرتے ہوئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے چین نے تائیوان کے گرد گزشتہ مہینے کے اوائل سے اب تک کی سب سے بڑی فوجی مشقیں کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: نینسی پلوسی کے دورے کے بعد چین نے تائیوان کے گرد فوجی مشقیں شروع کردیں
دفتر برائے چین ۔ تائیوان امور کے ترجمان ما ژیاگونگ نے بیجنگ میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ چین پرُامن طریقے سے ‘دوبارہ اتحاد’ کے لیے بھرپور کوششوں کا خواہش مند ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مادر وطن کو متحد ہونا چاہیے اور لازماً متحد ہوگا۔
چین نے تائیوان کے لیے ‘ایک ملک، دو نظام’ کا ماڈل تجویز کیا ہے، یہ وہی فارمولا ہے جس کے تحت برطانیہ کی سابق کالونی ہانک کانگ کو 1997 میں واپس چین کی حکمرانی میں دیا گیا تھا۔
ما ژیاگونگ نے کہا کہ تائیوان میں چین سے مختلف سماجی نظام ہوسکتا ہے جس سے ان کے طرز زندگی کے احترام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، اس میں مذہبی آزادی بھی شامل ہے، تاہم یہ قومی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کو یقینی بنانے کی پیشگی شرط کے تحت ہوگا۔
رائے پر مبنی پول کے مطابق تائیوان کی تمام قومی سیاسی جماعتوں نے ان تجاویز کو مسترد کردیا ہے، اور اسے کوئی عوامی حکومت بھی حاصل نہیں ہے، خاص طور پر بیجنگ کی جانب سے ہانگ کانگ میں 2020 میں نیشنل سیکیورٹی لا نافذ کرنے بعد شہر میں کچھ موقع پر حکومت اور چین مخالف پرُتشدد مظاہرے ہوئے۔
مزید پڑھیں: چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکا اس کا دفاع کرے گا، بائیڈن
چین نے کبھی بھی تائیوان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے فورسز کے استعمال کو ترک کرنے کا نہیں کہا، اور 2005 میں ایک قانون منظور کیا جس کے تحت ملک کو تائیون کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا قانونی جواز مل گیا۔
چین، تائیوان کی صدر تسائی اِنگ۔وین کے 2016 میں عہدہ سنبھالنے سے اب تک مذاکرات کرنے سے انکار کرتا رہا ہے، اور یقین رکھتا ہے کہ وہ علیحدگی پسند ہیں، انہوں نے مبینہ طور پر مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔
تاہم سابق صدر ما ینگ۔جیئو نے چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ سنگاپور میں 2015 میں تاریخی ملاقات کی تھی۔
اسی موقع پر نیوز کانفرنس کرتے ہوئے تائیوان پارٹی ورک آفس کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ قیو کائی منگ نے بتایا تھا کہ شی۔ما ملاقات تائیوان کی طرف ‘اسٹرٹیجک لچک’ ظاہر کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آبنائے کے دونوں طرف چین کے لوگ عقل مند ہیں اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'آگ سے نہ کھیلیں'، امریکی عہدیدار کے تائیوان دورے پر چین کا انتباہ
تائیوان کی حکومت کہتی ہے کہ جزیرے پر کبھی بھی پیپلز ری پبلک آف چائنا نے حکومت نہیں کی، لہٰذا اس کی خودمختاری کا دعویٰ کالعدم ہے۔