اگست کے دوران گاڑیوں کی فنانسنگ میں 2.2 فیصد کمی
گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بلند شرح سود کے سبب اگست میں آٹو فنانسنگ جولائی کے مقابلے میں 2.2 فیصد کم ہوگئی جو کہ جنوری کے بعد سب سے کم ترین سطح ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اگست میں گاڑیوں کے لیے قرض 8.2 فیصد اضافے سے 353 ارب روپے ہو گئے جوکہ 2021 میں اسی مہینے میں 326 ارب روپے تھے اور رواں سال جولائی میں 361 ارب روپے تھے۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق جون سے اگست تک آٹو فنانسنگ میں مجموعی کمی تقریباً 15 ارب روپے رہی۔
سربراہ ریسرچ پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ شرح سود بلند رہنے کی صورت میں آنے والے مہینوں میں آٹو فنانسنگ منفی رہ سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: جولائی کے دوران ماہانہ آٹو فنانسنگ میں کمی
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے 30 لاکھ روپے سے زیادہ کی آٹو فنانسنگ پر پابندی، قرضوں کے بوجھ کا تناسب، آٹوموبائل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، غیر متاثر کن میکرو اکنامک انڈیکیٹرز، اسمبلرز کی جانب سے پیداواری ایام میں کمی اور گاڑیوں کی بکنگ اور ترسیل کا غیر یقینی شیڈول بھی اس کے محرکات میں شامل ہیں۔
دریں اثنا سربراہ ریسرچ اسمٰعیل اقبال سیکیورٹیز فہد رؤف نے مہنگی آٹو فنانسنگ کے پیش نظر مکمل آٹو سیکٹر کے لیے ایک مشکل وقت آنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے کیونکہ آئندہ 6 ماہ میں 15 فیصد کی بلند شرح سود میں کمی کا امکان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلند قیمتوں کی وجہ سے لوگ گاڑیوں کے لیے قرض لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں جس کے سبب گاڑیوں کی مانگ کم ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے 30 لاکھ روپے تک کی فنانسنگ کی حد اور گاڑیوں کے لیے قرض کی مدت میں 7 سے 3 سال کی کٹوتی بہت سے خریداروں کو راغب کرنے میں ناکامی کا سبب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آٹو فنانسنگ 2 کھرب 73 ارب روپے کی 'بلند ترین' سطح تک پہنچ گئی
فہد رؤف نے بتایا کہ ’انشورنس اور دیگر چارجز شامل کرنے کے بعد لوگ 20 فیصد شرح سود پر گاڑیوں کے لیے قرض لینے کے متحمل نہیں ہو سکتے، لوگوں کے لیے مہنگی ماہانہ اقساط ادا کرنا مشکل ہو رہا ہے‘ ۔
انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں سیلاب سے فصلیں تباہ ہوگئی ہیں جس کے سبب آئندہ مہینوں میں گاڑیاں خریدنے کے خواہاں کاشتکاروں کی حوصلہ شکنی ہوگی، اس صورتحال میں آٹو سیکٹر معاشی سست روی کو مزید محسوس کرے گا۔
آٹو فنانسنگ میں کام کرنے والے ایک بینکر نے بتایا کہ ’صورتحال بہت خراب ہے اور اسٹیٹ بینک کی موجودہ پابندیوں کے تحت کسی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ فنانسنگ کی مدت میں کمی نے مارکیٹ سے خریدار چھین لیے، خریداروں کو راغب کرنے کے لیے فنانسنگ کی رقم کی حد 30 لاکھ روپے سے بڑھا کر 80 لاکھ روپے کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: پارٹس کی قلت کے باعث گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں ‘پیداواری ایام’ میں کمی کرنے پر مجبور
آٹو اسمبلرز بینکوں کی کار فنانسنگ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں کیونکہ گاڑیوں کی کل فروخت میں ان کا شیئر 3 بڑے جاپانی کار اسمبلرز کے 26 فیصد اور 40 فیصد شیئر کے درمیان ہوتا ہے۔
جولائی تا اگست میں کاروں کی کل فروخت سالانہ بنیادوں پر 50 فیصد کم ہو کر 19 ہزار 358 یونٹس رہ گئی جو ایک سال قبل 38 ہزار 568 یونٹس تھی، اس کی وجہ گاڑیوں کے لیے درکار پرزوں کی کمی اور معاشی سست روی کے سبب پیداواری ایام میں کمی کو سمجھا جاتا ہے۔