ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے
ایران میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتار نوجوان خاتون مہسا امینی کی دوران حراست وفات پر شدید مظاہرے پھوٹ پڑے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں مظاہرین کو ایران کے صوبہ کردستان کے قریبی شہروں سے 22 سالہ مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں جمع ہونے کے بعد حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا گیا جو تہران کے ایک ہسپتال میں انتقال کر جانے والی نوجوان خاتون کا سوگ منا رہے تھے۔
کچھ مظاہرین نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے حوالے سے ’ڈکٹیٹر مردہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے، اس دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
مہسا امینی کو ’اخلاقی پولیس‘ نے مبینہ طور پر سر ڈھانپنے کے قانون کی تعمیل نہ کرنے پر گرفتار کیا تھا۔
مزید پڑھیں: دشمن ایران کو کمزور کرنے کے لیے احتجاج کو استعمال کررہے ہیں، خامنہ ای
گزشتہ چند ماہ میں سماجی کارکنان نے خواتین پر زور دیا کہ وہ عوامی مقامات پر اپنے نقاب اتار دیں، یہ ایک ایسا عمل ہے جسے شرعی لباس کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اور اس کے ردعمل میں ان کی گرفتاری کا خطرہ بڑھے گا۔
ملک کا سخت گیر حکمراں طبقہ اس عمل کو ’غیر اخلاقی رویہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں ایسے متعدد کیسز دیکھے گئے جن میں اخلاقی پولیس یونٹس کی جانب سے ان خواتین کے خلاف سخت کارروائی کی گئی جنہوں نے اپنا حجاب اتار دیا تھا۔
حکام نے مہسا امینی کی موت کی تحقیقات شروع کر دی ہیں لیکن ایک طبی معائنہ کار نے کہا کہ فرانزک ٹیسٹ کے نتائج میں 3 ہفتے لگ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران: ’حجاب‘ کے خلاف احتجاج پر 29 خواتین گرفتار
سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مہسا امینی پر دوران حراست تشدد کیے جانے کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ مہسا امینی اخلاقی پولیس اسٹیشن میں دیگر زیر حراست خواتین کے ہمراہ انتظار کرتے ہوئے بیمار ہوگئیں تھیں۔
پولیس نے ثبوت کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی جاری کی جو بظاہر اس حوالے سے ان کے مؤقف کی حمایت کرتی ہے، تاہم اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کی جاسکی جسے ایڈٹ کیے جانے کا امکان موجود ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ مہسا امینی کو اچانک دل کا دورہ پڑا تھا جس پر انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا، تاہم ان کے رشتہ داروں نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دل کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔