سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کیلئے عدم تحفظ کے دہرے خدشات
پاکستان میں سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہوجانے کے بعد صنفی بنیاد پر تشدد اور بچوں کے عدم تحفظ کے خدشات دگنا ہوگئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل انسانی تحفظ کی سرگرمیوں کے لیے معاون ادارے ’پروٹیکشن سیکٹر‘ کے مطابق سیلاب نے عدم تحفظ کے خدشات کو بڑھا دیا ہے جن میں خاندانوں کا بچھڑ جانا، صنفی بنیاد پر تشدد، چوریاں اور جسمانی حملے شامل ہیں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیاں تشدد کا نشانہ بننے کے سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں۔
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے حالیہ جائزوں کے مطابق سندھ اور خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ علاقوں میں نصف سے زائد خواتین کو بیت الخلا کی مناسب سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی سیلاب متاثرین کیلئے کمبل، بچوں کی غذا فراہم کرنے کی اپیل
ان سہولیات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرات کا بھی سامنا ہے جبکہ سروے کے مطابق سندھ میں 100 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 65 فیصد خواتین اور لڑکیوں نے ماہواری کے حوالے سے درکار سامان کی عدم دستیابی کی اطلاع دی۔
ان جائزوں میں خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ جگہوں اور پناہ گاہوں کی فوری ضرورت کی نشاندہی کی گئی کیونکہ سیلاب کے سبب نقل مکانی کرنے والے مقامات پر لوگوں کو شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
امریکا کا سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے فضائی آپریشن مکمل
دریں اثنا یو ایس سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے یو ایس ایڈ ڈیزاسٹر اسسٹنس رسپانس ٹیم کی قیادت میں ریلیف آپریشن کے لیے دبئی میں یو ایس ایڈ کے گودام سے ہنگامی امدادی اشیا کی پاکستان ترسیل کا فضائی آپریشن مکمل کرلیا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے امریکا کی مسلسل تعاون کی یقین دہانی
یو ایس ایڈ کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے 15 پروازوں کے ذریعے تقریباً 630 ٹن امدادی سامان کی ترسیل کی جو کہ 3 لاکھ 35 ہزار سے زائد لوگوں کو پناہ دینے کے لیے کافی ہے، اس کے علاوہ 2 پروازیں اس سامان کو آف لوڈ کرنے کے لیے درکار عملے اور مشینری کے لیے تھیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق حالیہ چند روز میں سیلاب کی سطح میں کچھ کمی کے باوجود مسلسل جمع پانی بنیادی انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچانے، انسانی ضروریات کو بڑھانے اور بے گھر افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے 14 موبائل اسٹوریج یونٹ قائم
دریں اثنا ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی جانب سے لاجسٹک ورکنگ گروپ کی قیادت اور متاثرہ علاقوں میں امداد کی ترسیل اور تقسیم کے لیے حکومت کے ساتھ معاونت کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے مزید مؤثر حکمت عملی کی ضرورت
اب تک ڈبلیو ایف پی نے کراچی میں 14 موبائل اسٹوریج یونٹس قائم کیے ہیں جبکہ کوئٹہ، کراچی، سکھر، پشاور اور ملتان میں 5 گودام قائم کیے ہیں، مزید برآں لاجسٹک ورکنگ گروپ کے معاونین اور حکومت نے بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں 4 امدادی مرکز قائم کیے ہیں۔
بے گھر افراد کیلئے آئی او ایم سرگرم
پاکستان میں انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) اور اس کے شراکت دار سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والے تقریباً ایک کروڑ افراد کو ہنگامی پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں۔
چیف آف مشن آئی او ایم نے بتایا کہ ’آئی او ایم اور اس کے پارٹنر اے سی ٹی ای ڈی کی جانب سے ضلع جیکب آباد کی تحصیل تھول میں سیلاب سے متاثرہ خاندانوں میں 25 ہزار شیلٹر کٹس تقسیم کی جارہی ہیں‘۔
مزید پڑھیں: ماہرین کی پاکستان کو 'ماحولیاتی معاوضہ' طلب کرنے کی تجویز
سکھر میں آئی او ایم کی جانب سے ڈسٹری بیوشن ہب کا انتظام کیا گیا ہے جہاں ٹیمیں 24 گھنٹے شیلٹر کٹس وصول کرنے، ٹرک پر لوڈ کرنے اور متاثرین کو فراہم کرنے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ سرگرم ہیں۔
توقع ہے کہ کم از کم 3 لاکھ افراد (25 ہزار خاندان) ان کٹس سے فوری طور پر مستفید ہوں گے جو کہ یو اسی ایڈ کی جانب سے عطیہ کی گئی ہیں۔