اتحادی حکومت کے رہنماؤں کےخلاف دائر کرپشن کیسز عملی طور پر بند ہوگئے
نئے ترمیم شدہ احتساب قوانین کے تحت عدالتوں نے 50 کروڑ روپے سے کم کی بدعنوانی کے ریفرنسز کو انسداد بدعنوانی کے نگراں ادارے کو واپس بھیجنا شروع کردیا ہے، تاہم اس کے نئے سربراہ کو بظاہر انہیں کارروائی کے لیے متعلقہ فورم بھیجنے کی کوئی جلدی نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معلوم ہوا ہے کہ رمضان شوگر ملز جیسے کرپشن کیسز کم از کم ابھی کے لیے عملی طور پر بند ہوگئے ہیں۔
وفاقی حکومت کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ اس طرح کے تقریباً تمام ریفرنسز ان لوگوں کے خلاف تھے جن کا تعلق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت موجودہ مخلوط حکومت سے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم، حمزہ شہباز کےخلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس واپس چیئرمین نیب کو بھیجنے کا حکم
ایک سابق پراسیکیوٹر جنرل کا خیال ہے کہ مقدمات کو قومی احتساب بیورو کو واپس بھیجنے کا مطلب یہ نہیں کہ 'جرم کا ارتکاب نہیں ہوا' اور اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے درجنوں کیسز تھے۔
احتساب عدالتوں نے حال ہی میں ترمیم شدہ قانون سازی کا حوالہ دیتے ہوئے اور اسے مجاز دائرہ اختیار کی عدالت کے سامنے رکھنے کی ہدایت کے ساتھ وزیر اعظم شہباز شریف، ان کے بیٹے حمزہ شہباز (رمضان شوگر ملز) اور سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی (یو ایس ایف) اور راجا پرویز اشرف (رینٹل پاور پروجیکٹس) کے خلاف کئی ریفرنسز نیب چیئرمین کو واپس بھیجے ہیں۔
وفاقی حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ نیب کے نئے سربراہ جنہیں وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے منتخب کردہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے تعینات کیا تھا، ان کرپشن کیسز کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ جیسے دیگر فورمز کو بھیجیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'بظاہر یہ بدعنوانی کے ریفرنسز بند ہوگئے ہیں کیونکہ نیب انہیں کارروائی کے لیے متعلقہ قانونی فورمز کو بھیجنے میں کوئی جلدی نہیں دکھا رہا اور تقریباً تمام ایسے ریفرنسز ان لوگوں کے خلاف تھے جن کا تعلق موجودہ مخلوط حکومت سے ہے'۔
مزید پڑھیں: احتساب عدالت نے رینٹل پاور پروجیکٹس کے 7 ریفرنس نیب کو واپس بھیج دیے
جب نیب کے ترجمان ندیم خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایسے تمام کیسز کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا جائے گا۔
اس سے قبل نیب پنجاب کے سابق ڈائریکٹر فاروق حمید نے ڈان کو بتایا تھا کہ حکومت کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ بیورو کو غیر فعال کرنے کے لیے ایسی قانون سازی کرنے کے بجائے اسے بند کر دیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کرپٹ اشرافیہ کا احتساب اب ناممکنات میں سے ہے، حکومت نیب کے لیے بجٹ میں اربوں روپے کیوں مختص کرے جب کہ اس نے یہ یقینی بنانے کے لیے تبدیلیاں کی ہیں کہ بدعنوانوں کے ذریعے لوٹے گئے اربوں روپے کی واپسی نہ ہو سکے'۔
نیب پنجاب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل چوہدری خلیق الزمان نے کہا کہ اگرچہ ریفرنسز جن میں 50 کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کی گئی تھی وہ نیب کو واپس کر دیے گئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جرم نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: بی آر ٹی پشاور کی انکوائری رپورٹ 15 ستمبر تک آجائے گی، چیئرمین نیب
انہوں نے کہا کہ احتساب عدالتوں نے چیئرمین نیب سے کہا ہے کہ وہ ان ریفرنسز کو متعلقہ فورم کو بھیجیں اور یہ کہ کوئی یا تو اے سی ای، ایف آئی اے کی خصوصی عدالت سینٹرل ہو سکتا ہے یا ایسے کچھ کیسز میں یہ فورم سیشن کورٹ ہو سکتی ہے۔
خلیق الزمان نے کہا کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے کیسز کی تعداد درجنوں میں ہے۔
نیب کے ایک سابق پراسیکیوٹر کے مطابق نیب قوانین میں جو سب سے واضح تبدیلی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ثبوت کا بوجھ بیورو کو مبینہ بدعنوانی کی رپورٹ دینے والے پر ڈال دیا گیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مشتبہ شخص کسی بھی ذریعے سے آسانی سے اپنی جمع کی ہوئی دولت لے کر فرار ہو سکتا ہے۔
نیب کو واپس بھیجے گئے پنجاب یوتھ فیسٹیول ریفرنس سے وابستہ ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ایک اہم پہلو نیب قوانین میں حالیہ ترامیم سے قبل خود 'نیب' کی جانب سے اختیارات کا غلط استعمال اور قانون کا غلط استعمال تھا
مزید پڑھیں: پنجاب: اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی فرح خان کو اراضی الاٹمنٹ کیس میں 'کلین چٹ'
انہوں نے ایک اعلیٰ عدالت کی آبزرویشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ڈکشنری سے واضح ہے کہ 'بدعنوانی' اور 'کرپٹ طرز عمل' کے الفاظ 'غفلت' یا یہاں تک کہ 'لاپرواہی' سے الگ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قصوروار ذہن کے بغیر محض غیر قانونی، غفلت یا لاپرواہی بدعنوانی نہیں بنتی۔ آگے بڑھنے سے پہلے سابقہ قانون کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔
دوسری جانب حکمراں اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دعویٰ کرتی ہیں کہ ایسے تمام ریفرنسز 'سیاسی بنیادوں' پر قائم کیے گئے تھے۔