موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ممالک میں بھوک میں 123 فیصد اضافہ
آکسفام کی رپورٹ کے مطابق ریکارڈ خشک سالی سے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید بھوک میں اضافہ ہورہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق آکسفام نے امیر ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کاربن کے اخراج میں کمی کریں اور کم آمدنی والے ممالک کو زرتلافی ادا کریں۔
تجزیاتی رپورٹ ‘ہنگر اِن اے ہیٹنگ ورلڈ’ میں پتا چلا کہ 10 سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں گزشتہ 6 برسوں کے دوران شدید بھوک میں 123 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
آکسفام امریکا کی سینئر پالیسی ایڈوائزر لیا لنڈسے نے ‘اے ایف پی’ کو بتایا کہ شدید موسم کے متعدد اثرات پہلے ہی محسوس کیے جا رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ دنیا کے رہنماؤں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس حوالے سے کچھ کرے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے، انتونیو گوتریس
صومالیہ، ہیٹی، جبوتی، کینیا، نائیجر، افغانستان، گوئٹے مالا، مڈغاسکر، برکینا فاسو اور زمبابوے گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران بار بار شدید موسمی اثرات کی زد میں آچکے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 4 کروڑ 80 لاکھ افراد شدید بھوک میں مبتلا ہیں، اس کا مطلب ایسی بھوک ہے جو کسی صدمے کی وجہ سے آئی ہو اور جس سے زندگی اور ذریعہ معاش کو خطرہ ہو۔
رپورٹ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ عالمی سطح پر بھوک کی وجوہات پیچیدہ ہیں، اس کی اہم وجوہات میں تنازعات اور اقتصادی رکاوٹوں بشمول کووڈ-19 کی عالمی وبا بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نئی اور بدترین شدید موسمی صورتحال خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں غریب لوگوں کی بھوک سے بچنے کے لیے اگلے صدمے سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ختم کررہی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مثال کے طور پر صومالیہ کو تاریخی بدترین خشک سالی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے 10 لاکھ سے زائد لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی زیادہ اور شدید گرمی کی لہر اور دیگر شدید موسمی حالات بشمول سیلاب کی وجہ بن رہی ہے، جس سے پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، فصلیں اور زرعی انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔
مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، یورپ بھر میں جنگل آگ کی لپیٹ میں آگئے
گوئٹے مالا میں موسمی صورتحال کی وجہ سے 80 فیصد سے زیادہ مکئی کی فصل ختم ہوگئی، اس کے ساتھ ساتھ ‘کافی کے بحران’ نے خطے کو بری طرح متاثر کیا ہے، کافی تعداد میں لوگ امریکا ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔
‘خیرات نہیں، ذمہ داری’
آکسفام نے زور دیا کہ موسم کی وجہ سے بھوک عالمی عدم مساوات کو ظاہر کرتی ہے، جو ممالک اس بحران کے کم ذمہ دار ہیں، ان پر اس کے زیادہ منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
الودگی پھیلانے میں صنعتی ممالک زیادہ ذمہ دار ہیں، جی-20 ممالک کا دنیا کے کاربن کے اخراج میں حصہ تین چوتھائی سے زیادہ ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ 10 متاثرہ ممالک مجموعی طور پر صرف 0.13 فیصد ذمہ دار ہیں۔
آکسفام انٹرنیشنل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گبریلا بُچر نے ایک بیان میں کہا کہ خاص طور پر الودگی پھیلانے والے امیر ممالک اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے کاربن کے اخراج میں کمی کریں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے 2022 میں انسانی بنیادوں پر امدادی اپیل 49 ارب ڈالر کی ہے، آکسفام نے نوٹ کیا کہ یہ رقم ایندھن کی کمپنیوں کے 18 دن کے نفع سے بھی کم کے برابر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف منصوبہ بنانا ہوگا، وزیراعظم
گبریلا بُچر کا کہنا تھا کہ قرض کی منسوخی سے حکومتوں کو وسائل آزاد کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے، امیر ممالک زیادہ متاثرہ غریب ممالک کو معاوضہ دینے کی اخلاقی ذمہ داری رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان ممالک پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یہ خیرات نہیں ہے۔