ایون فیلڈ کیس: سماعت 2 ہفتے مؤخر کرنے کی نیب کی درخواست مسترد
ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں مریم نواز کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جب کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایک بار پھر سماعت 15 روز کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن یبنچ نے نیب کو حکم دیا کہ وہ 20 ستمبر تک اپنا جواب مکمل کرے، پھر عدالت مریم نواز کی اس اپیل پر فیصلہ کرے گی جو کہ 2018 سے زیر التوا ہے۔
نیب گزشتہ سال نومبر سے مختلف وجوہات اور بنیادوں پر کیس میں التوا کا مطالبہ کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نیب نے مریم نواز کی ضمانت منسوخی کیلئے درخواست دائر کردی
کیس کی سماعت کرنے والا اسلام آباد ہائی کورٹ کا بینچ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ہے۔
دوران سماعت مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے ان کی سزا کے خلاف اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ٹیم کا ایک رکن حاضر نہیں ہے۔
نیب کے وکیل نے عدالت سے سماعت مزید 2 ہفتوں تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، عدالت نے پہلے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کی لیکن بعد میں یہ بتائے جانے پر کہ 22 تاریخ کو ہی پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی ہے ، عدالت نے کیس کی سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: 'نئی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ عدالت کرے گی'
مریم نواز کے وکیل نے اپنے اختتامی دلائل میں کہا کہ کیس میں استغاثہ نے مکمل طور پر رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ پر انحصار کیا ہے جو ایک 'نام نہاد' ماہر تھا، رابرٹ ریڈلے نہ تو کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا ماہر تھا اور نہ ہی فونٹس میں مہارت رکھتا تھا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ مریم نواز کو ٹرسٹ ڈیڈ کی بنیاد پر سزا سنائی گئی تھی جس کے بارے میں ماہر کا کہنا تھا کہ وہ کیلیبری فونٹ میں تیار کی گئی تھی جب کہ یہ فونٹ جو دستاویز کی تیاری کے وقت "صارفین کے استعمال کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
تاہم، امجد پرویز نے مزید کہا کہ جرح کے دوران، رابرٹ ریڈلے نے تسلیم کیا کہ کیلیبری فونٹ آزمائشی بنیادوں پر صارفین کے استعمال کے لیے دستیاب تھا اور وہ اس فونٹ کو باقاعدہ لانچ کرنے سے پہلے ہی ڈاؤن لوڈ اور استعمال کر چکے تھے۔
مریم نواز کے وکیل نے دلیل دی کہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی 'بطور ثبوت اہمیت ' نہیں ہے لیکن مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اسے اعلیٰ عدالتوں کے وضع کردہ قانون کے برعکس بنیادی ثبوت کے طور پر دیکھا۔
امجد پرویز نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے برطانوی وکیل جیریمی فری مین کا بیان ریکارڈ نہیں کیا جن کی موجودگی میں ٹرسٹ ڈیڈ تیار کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ کیس کا جرمانہ وصول کرنے کیلئے نیب کا نواز شریف کے اثاثے فروخت کرنے کا حکم
ٹرسٹ ڈیڈ کی وضاحت کرتے ہوئے امجد پرویز نے کہا کہ یہ شریف خاندان کا اندرونی معاملہ ہے، انہوں نے کہا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے شیئرز ان کے بھائی حسین نواز کے نام پر رجسٹرڈ ہونے تک مریم نواز کچھ وقت کے لیے جائیداد کی نگراں بن گئیں۔
امجد پرویز کے مطابق برطانوی حکام کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کے اندراج کی کوئی قانونی ضرورت نہیں تھی جب کہ حسین نواز کے نام پر جائیداد رجسٹر ہونے کے بعد دستاویزات کی حیثیت خود بخود ختم ہوگئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا استغاثہ نے اصل ٹرسٹ ڈیڈ ٹرائل کورٹ میں جمع کرائی جس پر اجمد پرویز نے جواب دیا کہ ثبوت کے طور پر صرف ٹرسٹ ڈیڈ کی فوٹو کاپی پیش کی گئی جو کہ قانون شہادت کے خلاف ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ایسی کوئی دستاویز بطور ثبوت استعمال نہیں ہو سکتی۔