نیوزی لینڈ میں سوٹ کیس سے بچوں کی لاشیں ملنے کا معاملہ، جنوبی کوریا میں خاتون گرفتار
جنوبی کوریا کی پولیس نے ایک خاتون کو گرفتار کر لیا ہے جس پر اپنے دو بچوں کو قتل کرنے کا الزام ہے، جن کی باقیات گزشتہ ماہ نیوزی لینڈ میں سوٹ کیسوں سے ملی تھیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ جنوبی کوریا میں پیدا ہونے والی 42 سالہ نیوزی لینڈ کی شہری کو جنوب مشرقی شہر السان سے گرفتار کیا گیا تھا اور اسے حوالگی کے لیے دارالحکومت سیول منتقل کیا جائے گا۔
جنوبی کوریا کی نیشنل پولیس ایجنسی نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس نے ملزمہ السان کو ایک اپارٹمنٹ سے اس کی رہائش اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے متعلق رپورٹس کے بعد گرفتار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سرائے عالمگیر: سنگدل باپ نے 4 بچوں کو قتل کردیا
بیان میں بتایا گیا کہ ملزمہ پر نیوزی لینڈ کی پولیس کا الزام ہے کہ اس نے 2018 کے آس پاس آکلینڈ کے ایک علاقے میں اپنے 7 اور 10 سال کی عمر کے 2 بچوں کو قتل کردیا تھا، وہ جرم کے بعد جنوبی کوریا پہنچ گئی تھی اور اس وقت سے روپوش تھی۔
مقامی میڈیا کی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ سادہ لباس میں ملبوس تفتیش کار اس خاتون کے سر کو بھورے رنگ کے کوٹ سے ڈھانپ کر السن پولیس اسٹیشن سے باہر لے گئے۔
ملزم خاتون سے مقامی میڈیا نے پوچھا کہ کیا وہ قتل کا اعتراف کریں گی تو انہوں نے بار بار کہا کہ میں نے ایسا نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: خاتون نے 2 بچوں کو قتل کردیا
جنوبی کوریا کی یونہپ نیوز ایجنسی نے کہا کہ پولیس سیول ہائی کورٹ کے ذریعے حوالگی کی اسکریننگ کی تیاری کے لیے خاتون کو سیول سینٹرل ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرز آفس منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے'۔
بچوں کی باقیات
خیال رہے کہ دونوں بچوں کی باقیات اگست میں اس وقت دریافت ہوئیں جب ایک غیر مشتبہ خاندان نے نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر آکلینڈ کے قریب لاوارث سامان کی نیلامی میں ایک اشیا سے بھرا ٹرالر خریدا جس میں ایک سوٹ کیس بھی شامل تھا۔
نیوزی لینڈ پولیس نے کہا ہے کہ امکان ہے کہ لاشیں کئی برسوں سے اسٹوریج میں پڑی تھیں، جس کی وجہ سے تفتیش پیچیدہ ہوگئی ہے۔
حکام نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ جس خاندان کو لاشیں ملیں ان کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا اور انہیں صدمے سے نمٹنے میں مدد فراہم کی جارہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: ماں نے 3 بچوں کو زہر دے کر خودکشی کرلی
آکلینڈ میں جاسوس انسپکٹر توفیلاؤ فامانویا وائلوا نے بتایا کہ اس کیس کی تحقیقات بہت مشکل تھیں۔
جاسوس نے کہا کہ 'اتنے مختصر عرصے کے اندر کسی کو بیرون ملک حراست میں لینا یہ سب کچھ کوریائی حکام کی مدد اور نیوزی لینڈ پولیس کے انٹرپول کے عملے کے تعاون پر منحصر ہے۔'