توہین الیکشن کمیشن: عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں کا جواب غیرتسلی بخش قرار، ذاتی حیثیت میں طلب
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے توہین الیکشن کمیشن و چیف الیکشن کمشنر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اور دیگر کی جانب سے جمع کرائے جواب غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے 27 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب توہین عدالت پر جاری نوٹس پر سابق وزیراعظم عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب پر فیصلہ سنایا گیا۔
مزید پڑھیں: عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس جاری کیا اور 27 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں الیکشن کمیشن میں طلب کرلیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے اسد عمر اور فواد چوہدری کا جواب بھی غیر تسلی بخش قرار اور پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 27 ستمبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
قبل ازیں عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس میں تحریری جواب جمع کرایا گیا تھا۔
عمران خان، فواد چودھری اور اسد عمر کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت رکن سندھ نثار درانی کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے کی تھی۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے وکلا فیصل چوہدری اور بیرسٹر گوہر نے تحریری جوابات الیکشن کمیشن میں جمع کروایا تھا، جس میں عمران خان نے اپنے جواب میں توہین کے کیس پر الیکشن کمیشن کےدائرہ اختیار اور نوٹس کو چیلنج کیا گیا ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس آئین کے خلاف ہے، عمران خان نے اپنے بیانات میں الیکشن کمیشن کے کردار پر خدشات کا اظہار کیا جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس توہین کے مقدمات سننے کا اختیار نہیں۔
تحریری جواب میں کہا گیا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کو نوٹس بھجوانے کا اختیار نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے عمران خان کی کمیشن مخالف تقاریر پر نوٹس لے لیا
الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران فیصل چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں اس لیے توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز غیر آئینی ہیں اور اس معاملے پر ہائی کورٹ سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں رکن سندھ کے خلاف ریفرنس کے بارے میں بات کی، ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر التوا ہے، مناسب ہوگا کہ وہ خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیں۔
الیکشن کمیشن نے فیصل چوہدری کے اعتراض پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تینوں جوابات کا جائزہ لے کر مناسب حکم جاری کریں گے اور بعد ازاں حکم جاری کردیا گیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ الیکشن کمیش نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو مختف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الزمات عائد کرنے پر الیکشن کمیشن کی توہین اور ساتھ ہی عمران خان کو توہین چیف الیکشن کمشنر کا نوٹس بھی جاری کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے نوٹس میں عمران خان کے مختلف بیانات، تقاریر، پریس کانفرنسز کے دوران اپنے خلاف عائد ہونے والے بے بنیاد الزامات اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف استعمال ہونے والے الفاظ، غلط بیانات و من گھڑت الزامات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کو 30 اگست کو اپنے جواب کے ساتھ کمیشن میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹسز جاری کیے ہیں اور کہا گیا ہے کہ 30 اگست کو ذاتی حیثیت یا بذریعہ وکیل پیش ہوں۔
ترجمان نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے تینوں رہنماؤں نے مختف جلسوں، پریس کانفرنسز اور متعدد انٹرویوز کے دوران الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر من گھڑت الزمات عائد کیے، جس سے ادارے کی ساکھ اور الیکشن کمشنر کی عزت نفس مجروح ہوئی۔
مزیدپڑھیں: عمران خان پر الیکشن کمیشن کی توہین کا الزام
نوٹس میں کہا گیا تھا کہ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے 11 مئی، 16 مئی، 29 جون، 19، 20 جولائی اور 7 اگست کو اپنی تقاریر، پریس کانفرنسز اور بیانات میں الیکشن کمیشن کے خلاف مضحکہ خیز اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی، توہین آمیز بیانات دیے اور بے بنیاد الزامات عائد کیے جو براہ راست مرکزی ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو مخاطب کرکے نوٹس میں مزید کہا تھا کہ آپ نے 12 جولائی کو بھکر میں ہونے والے جلسے میں خطاب کیا جو اے آر وائی پر نشر ہوا اور ساتھ ہی اگلے دن روزنامہ ڈان میں شائع ہوا، جس میں آپ نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین آمیز باتیں کیں اور ان پر من گھڑت الزامات عائد کیے۔
الیکشن کمیشن پر الزامات
واضح رہے کہ 11 مئی کو سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا الیکشن کمیشن پر اعتماد صفر ہوچکا ہے، سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان کہہ چکے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر مسلم لیگ (ن) میں کوئی عہدہ لے لیں، عزت دار طریقہ یہی تھا کہ الیکشن کمشنر خود استعفیٰ دے دیتے لیکن بدقسمتی سے اس کے برعکس ہوا۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن لوٹوں کو بچانے کے لیے نکتے ڈھونڈ رہا ہے، عمران خان
انہوں نے کہا تھا کہ اس الیکشن کمیشن میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نمائندگی نہیں ہے، اس کا مطلب پاکستان کی 70 فیصد آبادی کی نمائندگی کا نہ ہونا ہے، الیکشن کمیشن مسلسل پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے خلاف ایک پارٹی بنا ہوا ہے۔
اس کے بعد 16 مئی کو خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ سارے پاکستان کو پتا ہے کہ لوٹے کون ہیں، ساری دنیا کے سامنے وہ لوٹےہوئے ہیں لیکن الیکشن کمیشن ان کو بچانے کے لیے نکتے ڈھونڈ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ لوٹے الیکشن کمیشن سے بچ بھی گئے تو پاکستان کے عوام سے نہیں بچیں گے۔
پھر 29 جون کو سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری، اسد عمر اور شیریں مزاری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا کو فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔
شیریں مزاری نے کہا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ سی اسی سی آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ جس طرح انہوں نے مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن روکا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
عمران خان نے 18 جولائی کو عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس الیکشن کمشنر پر ہمیں کوئی اعتماد نہیں ہے، انہوں نے سینیٹ کا الیکشن کروایا، سپریم کورٹ نے اجازت دی کہ آپ سینیٹ کے ووٹ کی تصدیق کریں، الیکشن کمیشن اور تمام سیاسی جماعتوں کو معلوم ہے کہ سینیٹ کی خفیہ رائے شماری میں پیسہ چلتا ہے، اس الیکشن کمشنر نے اس پر عمل نہیں کیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ جتنا پیسہ پچھلے سینیٹ کے انتخابات میں چلا اتنی تاریخ میں کبھی نہیں چلا، یوسف رضا گیلانی کا بیٹا پیسے دیتے ہوئے پکڑا گیا، اسی الیکشن کمشنر نے اس کی تحقیقات کی، سوا سال ہوگیا ہے اب تک کوئی ایکشن نہیں لیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں اب بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اس ملک کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ صاف اور شفاف الیکشن کروائیں، اس الیکشن کمشنر کی موجودگی میں صاف اور شفاف انتخابات کبھی نہیں ہوسکتے، ملک کی سب سے بڑی جماعت کو اس الیکشن کمشنر پر اعتماد ہی نہیں ہے، الیکشن کمشنر کو استعفیٰ دینا چاہیے، آپ ایک جانب دار آدمی ہیں۔
لاہور میں کارکنوں سے ویڈیو خطاب میں 28 جولائی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا تھا کہ ہم نے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات صرف ان جماعتوں کے خلاف نہیں بلکہ انتظامیہ، ریاستی مشینری اور الیکشن کمیشن کے خلاف لڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جس طرح یہ الیکشن کروایا ہے اس پر انہیں سزا دینی چاہیے، اس نے ہمیں ہرانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اعلان
انہوں نے کہا تھا کہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ایک پارٹی فیورٹ ہوتی ہے اور ان کے لیے کام بھی کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی اس طرح کا الیکشن کمیشن نہیں دیکھا۔
عمران خان نے کہا کہ ‘یہ سکندر سلطان کی طرح کا بددیانت الیکشن کمشنر کبھی نہیں دیکھا اور یہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن سے شروع ہوا جہاں تقریباً 400 میں سے 20 پر ریٹرننگ افسر نے بے ضابطگی بتائیں، اس نے سارا الیکشن پھر سے کروایا’۔
گزشتہ ماہ 7 اگست کو فواد چوہدری نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ 2017 میں سپریم کورٹ نے ایک حکم جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ہمیں امید ہے کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کی غیر ملکی فنڈنگ کا اکٹھا فیصلہ سنائے گا تاکہ لوگ موازنہ کر سکیں کہ سیاسی جماعتیں کیسے فنڈنگ کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس کے بعد پی ٹی آئی کے سردار اظہر نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروائی کہ 19 سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کا آڈٹ ہونا چاہیے، پاکستان کے قانون کے تحت یہ آڈٹ ہر سال ہونا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا، اس سے اندازہ لگالیں کہ الیکشن کمیشن نہ صرف جانب دار ہے بلکہ نااہل لوگوں پر بھی مشتمل ہے۔