لانگ کووڈ کے شکار افراد میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ
امریکی اور برطانوی ماہرین نے لانگ کووڈ اور خودکشی کے رجحان میں تعلق کا اشارہ دیتا ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت انتظامات نہیں کیے گئے تو دنیا بھر میں حالات سنگین ہوسکتے ہیں۔
لانگ کووڈ کی اسطلاح کورونا کے شکار ان مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کہ صحت یابی کے بعد بھی مختلف طبی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
اب تک آنے والی مختلف تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ لانگ کووڈ کے شکار افراد میں کم از کم 200 مختلف طبی شکایات یا علامات رہتی ہیں، جن میں بعض انتہائی سنگین پیچیدگیاں بھی ہوتی ہیں۔
لانگ کووڈ کا مطلب ہے کہ کورونا سے صحت یابی کے بعد بھی 6 ماہ سے ڈھائی سال تک کورونا جیسی علامات سمیت دیگر طبی پیچیدگیوں میں مبتلا رہنا اور اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا 15 کروڑ افراد ایسے ہیں جو لانگ کووڈ کا شکار ہیں۔
لانگ کووڈ کے شکار افراد میں ڈپریشن کی سطح سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، جس وجہ سے ان میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور امریکا اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں ایسے کیسز میں اضافہ ہوچکا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور برطانیہ کی ڈیٹا کلیکشن ایجنسی کے ماہرین نے لانگ کووڈ افراد میں خودکشی کے بڑھتے رجحانات پر تحقیق کرنا شروع کردی اور اب تک کے ابتدائی نتائج سے ان کا آپس میں تعلق دریافت ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق درجنوں ایسے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں لانگ کووڈ کے شکار افراد نے مسلسل بیمار رہنے کے بعد اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
ایسے افراد عام طور پر شدید ڈپریشن کا شکار بن جاتے ہیں، تاہم ان میں زیادہ تر لوگ ایسے بھی ہیں جو کورونا کا شکار ہونے کے بعد مختلف طرح کی جسمانی بیماریاں محسوس کرتے ہیں اور اپنے جسم کو مفلوج سمجھتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق لانگ کووڈ کے شکار افراد میں خودکشی کے بڑھتے رجحانات خطرناک ہیں اور اس معاملے کے حوالے سے بروقت انتطامات نہ کیے گئے تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔
رپورٹ میں امریکا کی 20 مختلف ہسپتالوں کے ڈیٹا کا حوالہ بھی دیا گیا، جس میں بتایا گیاکہ حیران کن طور پر کورونا کے شکار مریضوں کے مقابلے صحت یابی کے بعد لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کو ڈپریشن کا علاج کروانے کی جلد اور بہت ضرورت محسوس ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ لانگ کووڈ میں مبتلا افراد نے 90 دن میں ڈپریشن کی ادویات لیں جب کہ کورونا کے مریضوں کو ڈپریشن کا علاج کروانے کی ضرورت نہیں پڑی۔